شوم وج
بہار اسمبلی انتخابات سال 2015 میں جب نتیش کمار نے لالو یادو سے ہاتھ ملایا تھا اس کے بعد کئی لوگوں نے یہی سوچا تھا کہ بی جے پی کے لئے چیف منسٹر کو عہدہ سے بے دخل کرنے کا یہ آسان موقع ہے۔ بی جے پی کے لئے پہلے نتیش کمار ایک صاف و شفاف شبیہہ رکھنے والے لیڈر تھے، لیکن جیسے ہی انہوںنے بی جے پی کو نظرانداز کرکے لالو یادو سے ہاتھ ملایا ان کا امیج پاک و صاف نہیں رہا کیونکہ انہوں نے جنگل راج کے آئیکون لالو یادو سے اتحاد کیا۔ چنانچہ بی جے پی نے اس وقت رائے دہندوں سے یہی سوال کیا کہ آیا وہ جنگل راج 2.0 چاہتے ہیں؟ آپ کو یاد دلادوں کہ اس وقت نریندر مودی نے مظفر پور میں اپنی پہلی انتخابی ریالی منعقد کی۔ فطری طور پر یہی توقع کی گئی کہ مودی، نتیش کمار کے بارے میں یہی کہیں گے کہ انہوں نے جنگل راج کے ساتھ معاملت کرلی ہے لیکن اس وقت کے انتخابی حکمت عملی طے کرنے والے پرشانت کشور نے نتیش کمار کو اس بات کے لئے تیار کیا کہ وہ دوسرے دن صبح نریندر مودی سے ٹوئٹر پر 10 سوالات کریں۔ ایک ایسے وقت جبکہ مظفر پور انتخابی ریالی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے خیرمقدمی پروگرام ہونے والا تھا اس سے پہلے ہی نتیش کمار نے بہار کی ترقی کے مسائل پر وزیر اعظم مودی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر بہار کو خصوصی موقف دیئے جانے کے مطالبہ کو لے کر مودی حکومت پر نکتہ چینی کی۔ اُس دن صبح نتیش کمار نے بلکہ پرشانت کشور نے بہاریوں کو یہ نعرہ ’’جھانسے میں نہ آئیں گے، نتیش کو جتائیں گے‘‘ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مودی اپنی تقریر کے زیادہ تر حصہ میں صرف نتیش کمار پر تنقید کرتے رہے اور انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ جو لوگ ٹوئٹر استعمال کرنے کے لئے میرا مذاق اڑایا کرتے تھے اب وہی لوگ ٹوئٹر پر مجھ سے سوالات کررہے ہیں۔ مودی کی تنقید اس وقت شخصی حملہ میں تبدیل ہوگئی جب انہوں نے کہا کہ نتیش کمار کے ڈی این اے میں نقص پایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان پرشانت کشور کے لئے ایک اچھا موقع ثابت ہوا اور انہوں نے بہاریوں کو ایک کمیونٹی کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ بی جے پی باہر والے ہیں اور نتیش کمار بہاریوں کے اپنے آدمی ہیں۔ اس کے بعد بہاری بمقابلہ باہری مباحث کا آغاز ہوا۔ اب ویسی ہی صورتحال مغربی بنگال میں بھی نظر آرہی ہے۔
’’بیٹی کے مباحث میں پھنسی بی جے پی‘‘
حال ہی میں ترنمول کانگریس نے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لئے ایک نیا نعرہ ’’بنگال اپنی بیٹی کو چاہتا ہے‘‘ دیا اس نعرہ کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کا جواب ہگلی کی ریالی میں دیا اور ٹی ایم سی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ نل کے پانی، جل جیون مشن جیسی مرکزی اسکیمات پر عمل آوری نہیں کررہی ہے۔ انہوں نے شرکاء سے سوال کیا کہ آیا بنگال کی بیٹیاں صاف اور شفاف پانی کی حقدار نہیں ہیں؟ بی جے پی ٹی ایم سی کے مذکورہ نعرہ کے بعد سے بیٹی کے سوال پر ایک ہنگامہ کا شکار ہوگئی ہے، حد تو یہ ہیکہ ایک موافق بی جے پی ٹی وی چیانل نے مودی کو بنگال کی بیٹی بنا دیا۔ بی جے پی کا اس طرح ایسا کرنا ایسے ہی ہے جیسے خود کے پول میں گول کرنا کیونکہ جتنا زیادہ وہ بیٹی کے نعرہ کا حوالہ دیں گے اتنا ہی فائدہ ممتابنرجی کو ہوگا اور لوگوں کے ذہنوں میں بیٹی کے نام کے ساتھ ہی ممتابنرجی کا تصور ابھرے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ممتابنرجی ایک خاتون ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس عہدہ وزارت اعلیٰ کا کوئی امیدوار نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی قائدین بیٹی کے نعرہ کے جال میں پوری طرح پھنس چکے ہیں اور اس کا فائدہ ممتابنرجی کو ہوگا۔
دی دی کیوں بنی بیٹی
ممتابنرجی کو ہمیشہ ہی دی دی کے لقب سے ہی پکارا گیا اکثر لوگ انہیں دی دی کہہ کر ہی بلاتے ہیں ممتا نہیں ۔ دی دی کی شناخت اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ ان کا حقیقی نام لگتا ہے۔ پھر پرشانت کشور نے دی دی کو بیٹی میں کیوں بدلا؟ اور وہ بھی انتخابی مرحلہ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل؟ دی دی یا بہن کے الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہیکہ آپ اپنی ایسی بڑی بہن کو پکار رہے ہیں جو آپ کی دیکھ بھال کرے گی، آپ کی پرورش کرے گی، آپ کی رہنمائی کرے گی اور آپ کو آگے بڑھائے گی۔ لفظ ’’دی دی‘‘ نے ممتابنرجی کی اُس وقت بھی غیر معمولی مدد کی جب ریاست مغربی بنگال میں بائیں بازو کی حکومت تھی اور اس وقت لفظ دی دی نے کمیونسٹوں کے خلاف ممتابنرجی کو ایک چیالنجر کہ طور پر پیش کیا۔ اب صورتحال بدل چکی ہے۔ ممتابنرجی بی جے پی سے اپنے قلعہ کا تحفظ کررہی ہیں اور بیٹی کی شناخت اپنا کچھ کام کررہی ہے۔ اس اصل مقصد یہی ہیکہ بنگال کے رائے دہندوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ (ممتابنرجی) بنگال کی بیٹی ہیں، ان کی اپنی بیٹی۔ اسی لئے ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی بیٹی کی حفاظت کریں، اس کا خیال رکھیں۔
بنگالی بمقابلہ باہری
اس میں منطق یہ ہے کہ بی جے پی بنگال کی بیٹی نہیں اس کے متضاد یہ بتانا مقصود ہے کہ بنگال کی بیٹی بی جے پی کا نشانہ ہے۔ ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیا کسی کے لئے اپنی خود کی بیٹی کے تحفظ کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی جذباتی اپیل ہوسکتی ہے؟ یہ کہنا بھی ٹھیک ٹھیک نہیں ہے کہ بی جے پی بنگال میں حکمرانی کے لئے بنگالی نہیں ہے۔ جیسے کہ 2015 میں بہاری بمقابلہ باہری کا نعرہ اپنا کام کردکھایا تھا۔ اس سے ذیلی علاقائی شناخت کی بنیاد پر رائے دہندوں کی تقسیم عمل میں آئے گی۔ نریندر مودی ہو سکتا ہے کہ مغربی بنگال میں بہت زیادہ مقبولیت رکھتے ہوں جیسے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہم نے دیکھا لیکن ٹی ایم سی کے اس نعرہ نے عوام کو یاد دلادیا ہے کہ یہ انتخابات بنگال کے لئے ہیں ہندوستان کے لئے نہیں۔ اسی لئے بنگال خود اپنی بیٹی چاہتا ہے۔ ایسے میں یہ نعرہ قومی لیڈر جیسے نریندر مودی کے لئے بہت کم مواقع چھوڑے رکھتا ہے۔ اس سے ایک بنگالی آسکوں کی تلاش ایک مرکزی سوال بن کر ابھر آتا ہے اسی وجہ سے بی جے پی کے لئے یہ نعرہ بہت مشکل بن گیا ہے اور اس نعرہ کا جواب دینا بھی مودی کی پارٹی کے لئے مشکل مرحلہ پیدا کرچکا ہے۔ اب یہی سوچنے پر وہ مجبور ہیں کہ آیا بی جے پی اس نعرہ کا جواب دے یا اسے نظرانداز کردے۔ دونوں صورتوں میں یہی لگتا ہے کہ ٹی ایم سی نے ایک بہت طاقتور کارڈ کھیلا ہے اور فی الوقت ٹی ایم سی کا یہ طاقتور کارڈ بنگال کی بیٹی ممتابنرجی ہے۔