منگلورو تشدد ‘ پولیس نے چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ‘ مسجد پر حملہ کیا

,

   

مسلمانوں کی دوکانوں میں توڑ پھوڑ کی ۔ پہلے سے تیاری کرکے کارروائی کی گئی ۔ حقائق کا پتہ چلانے والی کمیٹی کی رپورٹ

منگلورو 3 ڈسمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) پیپلز یونین فار سیول لبرٹیز ‘ اَ انڈیا پیپلز فورم اور نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائیٹس آرگنائزیشنس کے نمائندوں پر مشتمل ایک حقائق کا پتہ چلانے والی کمیٹی کی عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 19 ڈسمبر کو منگلورو میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجیوں پر پولیس کی جو کارروائی تھی وہ پہلے سے طئے شدہ تھی ۔ اس کارروائی میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا ‘ مسلم برادری کی دوکانوں کو نشانہ بنایا اور یہاں تک کہ انہوں نے ایک مسجد پر حملہ بھی کیا ۔ رپورٹ میں ادعا کیا گیا ہے کہ اس واقعہ سے ایک دن پہلے ہی پولیس نے تیاریاں شروع کردی تھیں۔ مختلف مقامات پر ریتی کے تھیلے جمع کئے گئے تھے اور باہر سے آئی کے ایس آر پی کے دستوں کو متعین کردیا گیا تھا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کی کارروائی پہلے سے طئے شدہ تھی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احتجاجیوں کی تعداد 200 تا 300 سے زیادہ نہیں تھی ۔ 6000 تا 7000 احتجاجیوں کا پولیس کا دعوی درست نہیں ہے ۔ اس ٹیم نے سوشیل میڈیا پر وائرل کئے جانے والے 60 تا 70 ویڈیوز کا بھی مشاہدہ کیا ہے ۔ ٹیم نے کہا کہ ابتداء میں 150 سے زیادہ نوجوان نہیں تھے جنہوں نے احتجاج شروع کیا اور وہ صرف نعرے لگا رہے تھے تاہم پولیس نے انہیں منتشر کردیا ۔ پولیس نے ان کے خلاف بے تحاشہ طاقت کا استعمال کیا ۔ رپورٹ کے بموجب نوجوان میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ اس دن جس احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے وہ منسوخ ہوا یا نہیں کیونکہ وہاں امتناعی احکام نافذ کرنے کے بعد ہی احتجاج کو منسوخ کرنے کا اعلان ہوا تھا اور یہ سبھی تک نہیں پہونچا تھا ۔

ایسے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے طاقت کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے علاقہ میں موجود دوکانوں میں گھس کر لوگوں کو وہاں سے نکالا اور چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ شام 4 بجے کے قریب پولیس کی ایک ٹیم نے ابراہیم خلیل مسجد پر حملہ کیا جہاں 80 افراد پرامن انداز میں نماز ادا کر رہے تھے ۔ پولیس چند نوجوانوں کا تعاقب کرتی ہوئی مسجد میں گھس گئی اور پھر اس نے مسجد پر بے تحاشہ حملہ کیا اور وہاں سنگباری کرنے کے علاوہ آنسو گیس کے شیلس بھی برسائے اور مسجد کی گیٹ پر توڑ پھوڑ کی ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے قائدین کو پولیس نے استعمال کرتے ہوئے صورتحا ل کو پرسکون بنانے کی کوشش کی ۔ در اصل پولیس کامیاب بھی ہو رہی تھی لیکن پولیس کارروائی میں ایک لیڈر اشرف کے زخمی ہونے سے صورتحال بگڑ گئی ۔ رپورٹ میں ادعا کیا گیا کہ عبدالجلیل اور نشین پولیس فائرنگ میں ہلاک ہوئے ہیں اور وہ احتجاج کا حصہ نہیں تھے بلکہ وہاں کھڑے ہوئے تھے ۔ سیول لبرٹیز کے ریاستی صدر وائی جے راجیندر نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس ملزمین کا مذہب مسلمان قرار دے رہی ہے اور یہ ایف آئی آر میں بھی درج ہے ۔ پولیس نے طئے شدہ انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے ۔