منی پور میں بحران کا حل ککیوں کیلئے علیحدہ انتظامیہ

   

کرن تھاپر
منی پور ماہ مئی کے آغاز کے ساتھ تباہ و بربادی کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے ، اب تک وہاں 100 تا ایک سو پچاس جانیں گئیں ہیں ، درجنوں گرجاگ گھروں کو آگ لگادی گئی اور کروڑہا روپئے مالیتی املاک تباہ کردی گئی اور لوٹ لی گئی ، وہاں کے حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اس شمال مشرقی ریاست میں فوری صدر راج نافذ کیا جانا چاہئے تاہم وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور دوسرے اہم بی جے پی قائدین بڑی بے حسی و بے بسی کا مظاہرہ کررہے ہیں ( اگر یہی حالات غیر بی جے پی ریاستوں میں ہوتے تو فوری صدر راج نافذ کردیا جاتا ۔ منی پور کے معاملہ میں سب کے منہ پر ایسا لگتا ہے کہ تالے لگ گئے ہیں) ۔ منی پور اُمور پر گہری نظر رکھنے والے پالیٹکل سائنس کے مشہور و معروف پروفیسروں میں سے ایک پروفیسر کھام کھان سوان ہازنگ نے اس بحران کے بارے میںکئی ایک مضامین تحریر کئے ہیں جن کی بے شمار اخبارات و رسائل میں بڑے اہتمام سے اشاعت بھی عمل میں آئی ہے ۔ پروفیسر ہازنگ کا اب ماننا ہے کہ ککی قبائل کیلئے علیحدہ انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن ) کے سواء کوئی اور متبادل نظر نہیں آتا ۔ پروفیسر صاحب کا مزید کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کو اپنے سیاسی معاملات و اُمور کا جلد سے جلد فیصلہ کرنا چاہئے کہ آخر وہ منی پور کے اس بحران کو کیسے حل کرتی ہے ۔
منی پور میں ککی قبائل میتھئی قبائل اور انتظامیہ بشمول پولیس و آسام رائفلس وغیرہ پر ان کے حامیوں کے ساتھ تعصب و جانبداری برتنے کا الزام عائد کررہے ہیں ۔ ککی قبائل کی خواتین نے وزیرداخلہ امیت شاہ کی سرکاری قیامگاہ پر دھرنا دیتے ہوئے ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی درخواست کی ۔ پروفیسر کھام کھان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منی پور میں اراضی کے مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر انھوں نے مئی کے اوائل میں اپنے مضامین ( مثال کے طورپر دی ہندو میں شائع مضامین ) میں جو تجاویز پیش کی تھیں وہ گذرتے وقت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہونچ چکی ہیں۔ ماہ مئی میں انھوں نے سوچا کہ علاقائی حقوق اور شناختوں کی حقیقی شناخت اور ٹھوس ملاپ ایک متحدہ منی پور میں اراضی بحران کو حل کرنے کے قابل بناسکتی ہے لیکن 6 ہفتوں بعد وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ ایسا ہی معاملہ ہے بلکہ اُن کا ایقان ہے کہ ایک علیحدہ انتظامیہ ہی اس مسئلہ سے نمٹ سکتا ہے ۔
دی وائر کیلئے راقم نے پروفیسر ہازنگ کا انٹرویو لیا ہے جس کا دروانیہ 50 منٹ ہے ۔ پروفیسر ہازنگ کہتے ہیں ، انھوں نے مئی میں جو تجاویز پیش کی تھیں ان میں سے ایک تجویز کا ہنوز اطلاق ہوسکتا ہے ۔ان کے خیال میں منی پور میں ککی ۔ میتھئی کا جو بحران ہے علیحدہ انتظامیہ ( ایڈمنسٹریشن ) ہی اس کا بہترین حل ہے۔ اب تو مصالحت کمیشن اور سچائی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اگر ان دونوں قبائل کو علیحدہ انتظامیہ کے تحت الگ کیا جاتا ہے تب ہی وہ پرامن پڑوسیوں کی طرح رہ سکتے ہیں ، زندگی گذار سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ککی قبائل کیلئے علیحدہ ایڈمنسٹریشن کے بعد بھی وہ مصالحت کمیشن کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ۔
اس سوال پر کہ منی پور میں کوئی ایسی بلند قامت اور دونوں قبائل کیلئے قابل احترام شخصیت ہے جو دونوں قبائل کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو دور کرکے اُنھیں پرامن و پرسکون زندگی گذارنے کی ترغیب دے سکتی ہے ؟ پروفیسر ہازنگ کا کہنا تھا کہ مشہور و معروف پلے رائٹ رکن تھیام ایسی شخصیت ہے جن کا میتھئی اور ککی دونوں قبائل احترام کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود پروفیسر ہازنگ یہی کہتے ہیں کہ ککیوں کیلئے صرف علیحدہ ایڈمنسٹریشن ( انتظامیہ ) ہی دونوں قبائلیوں کے درمیان پائے جانے والے مسئلہ و بحران کو حل کرسکتا ہے ۔ وہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے ۔ منی پور میں رہنے والے ناگا باشندہ اپنے علاقہ کو ناگالینڈ میں ضم کرنا چاہتے ہیں اور ہازنگ اسے تسلیم کرتے ہیں ، وہ یہ بھی قبول کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو منی پور صرف وادی امپھال تک محدود ہوکر رہ جائے گا لیکن سب سے اہم اور بڑا سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت چاہے موجودہ مرکزی حکومت ہو یا مستقبل میں آنے والی مرکزی حکومت کیا وہ منی پور کی تقسیم کی شکل میں اس مسئلہ کے حل کو قبول کرے گی ؟پروفیسر ہازنگ نے اپنے انٹرویو میں واضح کردیا کہ سب سے پہلے منی پور میں صد ر راج نافذ کیا جانا چاہئے کیونکہ وہاں حالات انتہائی ابتر ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کرفیو پر موثر عمل آوری کی جانی چاہئے یا اس کا نفاذ عمل میں لایا جانا چاہئے ۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو چاہئے کہ اپنی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے دونوں متحارب و متصادم قبائل سے بحالی امن کی اپیل کرنی چاہئے ۔ بہرحال اب یہ بھی سوال پیدا ہورہا ہے کہ اس سنگین مسئلہ کا حل متحدہ منی پور میں نکالا جاسکتا ہے یا پھر اسے علیحدہ ایڈمنسٹریشن سے متعلق ککیوں کے مطالبہ کو تسلیم کرکے حل کیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب پروفیسر ہازنگ یہی دیتے ہیں کہ منی پور کو بحران سے بچانے کیلئے ککیوں کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے ان کے لئے علیحدہ انتظامیہ ضروری ہے ۔ منی پور میں فی الوقت امن بحال کرنا ضروری ہے ( لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ افرار اختیار کررہی ہے ۔ مودی جی نے تو ایسا لگتا ہے کہ اپنا منہ نہ کھولنے کی قسم کھائی ہو ) ۔ غرض منی پور میں دونوں قبائل کے درمیان ’’اعتماد‘‘ کو جو نقصان پہنچا ہے اسے بھی بحال کرنا ضروری ہے ۔