ٹکنالوجی کو روکنا ممکن نہیں ، نسلوں کو برباد ہونے سے بچانا ہمارے بس میں
معاشرہ تب مضبوط ہوتا ہے جب والدین بہ شعور ہوں
پورن کے عادی کا حادثاتی آغاز تجسس۔ تنہائی ذہنی دباؤ تک پہنچ رہی ہے
محمد نعیم وجاہت
ڈیجیٹل دور میں اسمارٹ فونز کی بے تحاشہ دستیابی نے بچوں کی زندگی میں آسانیاں تو پیدا کی ہیں مگر اس کے ساتھ ایسے خطرناک دروازے بھی کھول دیئے ۔ جن کے نتائج ہمارے معاشرہ کے لئے گہری تشویش کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آج ایک بڑی تعداد میں بچے تفریحی ویڈیوز ، ریلز اور عام سوشیل میڈیا ، اسکرولنگ کے دوران غیر ارادی طور پر فحش مناظر تک پہنچ جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ ان میں تجسس پھر عادت اور آخرکار لت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مناظر تک رسائی میں بچوں کا زیادہ قصور نہیں ہوتا ، وہ جان بوجھ کر نہیں بلکہ حادثاتی طور پر اس فریب میں پھنس جاتے ہیں ۔ پولیس اور نفسیاتی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ بچے اسکول کی چھٹیوں ، کوچنگ سنٹرس ، سڑکوں پر انتظار کرتے ہوئے یا گھر میں اکیلے وقت گزارنے کے دوران خفیہ طور پر پورن سائٹس کھولتے ہیں۔ حیدر آباد ویمنس سیفٹی ڈپارٹمنٹ کی ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر لاونیا نائک جادھو کا کہنا ہے کہ ایسے ویڈیوز ہمیشہ اسی وقت دیکھے جاتے ہیں جب بچوں کو یقین ہوتا ہے کہ انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اس تناظر میں تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش سے وصول ہونے والے اعداد و شمار خطرے کی گھنٹی ثابت ہورہے ہیں ۔ پولیس کے مطابق ہر ماہ رپورٹ ہونے والی شکایتوں میں سے 70 فیصد کیسس نابالغوں سے متعلق ہوتے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ کتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ حیدرآباد میں پیش آنے والا ایک واقعہ والدین کیلئے سبق ہے ۔ ایک لڑ کا روزانہ اسکول سے واپس آکر کمرہ بند کرلیتا تھا ۔ والدین سمجھتے رہے کہ وہ پڑھ رہا ہے مگر جب ایک دن اس کا موبائیل چیک کیا گیا تو اس میں بڑی تعداد میں فحش ویڈیوز موجود تھیں۔ اس کا خلاصہ ہوجانے کے بعد لڑکا شدید نفسیاتیدباؤ کا شکار ہوگیا ۔ اس کی حالت دیکھ کر ماہر نفسیات سے رجوع کیا گیا تو چیختے اور روتے ہوئے ٹوٹ گیا ۔ چارماہ کی مستقل کونسلنگ کے بعد اسے معمول پر لایا جاسکا۔ ماہرین کے مطابق 12 سے 15 سال کی عمر میں ہارمونل تبدیلیاں شدید ہوتی ہیں جو بچوں کو ایسے مواد کے سامنے انتہائی کمزور بنادیتی ہیں ۔ صرف مشاہدہ نہیں استحصال کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ شہر حیدر آباد میں ایک ایسا شرمناک واقعہ بھی سامنے آیا ہے جس میں ایک آٹو ڈرائیور نے روزانہ اسکول لے جانے والی چھٹی جماعت کی لڑکی کو اس کے موبائل پر فحش ویڈیوز دکھاکر بدسلوکی کا نشانہ بنایا ۔ بعد میں اس واقعہ کو والدین یا دوستوں سے شیئر کرنے پر جان سے مارنے کی بھی دھمکی دی ، جس کے باعث لڑکی خوف کے مارے چپ رہی ۔ حقیقت اس وقت سامنے آئی جب لڑکی کو پیٹ میں درد کے باعث ہاسپٹل لے جایا گیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ جن اسکولس میں بچوں کو گڈ ٹچ ، بیاڈ ٹچ اور لائف اسکلس کی تعلیم ملنی چاہئے بعض اداروں میں والدین کی لاعلمی اور غلط فہمیاں ایسی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ایک خانگی اسکول میں اس موضوع پر تعلیم دینے والی ٹیچر کو والدین کے دباؤ پر برطرف کردیا گیا ۔ حالانکہ ماہرین کے مطابق بچوں کی مکمل تربیت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کی حفاظت سے متعلق شعور بھی تعلیم کا حصہ نہ ہو۔ پورن سائیٹس کے عادی بچوں کو پہچاننا مشکل نہیں ہے ۔ وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ چڑچڑے پن ، غصے اور اضطراب میں مبتلا رہتے ہیں ۔ دیر تک جاگنے اور موبائیل اسکرین کے مسلسل استعمال کے باعث ان کی آنکھیں سرخ رہتی ہیں اور گھر والوں سے نظریں چرانے لگتے ہیں ۔ اگر والدین ان علامات کو بروقت پہچان لیں اور مناسب مشورہ یا کونسلنگ فراہم کریں تو بچوں کا علاج نہایت آسان اور موثر ہوجاتا ہے ۔ قانونی اعتبار سے نابالغوں کا فحش مواد نہ صرف اخلاقی جرم ہے بلکہ عالمی قوانین کے تحت سنگین ترین سائبر کرائم میں بھی شمار ہوتا ہے ۔ نیشنل سنٹر فارمسنگ اینڈ ایکسپلائیڈ چلڈرن (NCMEC) دنیا بھر میں اس نوعیت کے مواد کی نگرانی کرتا ہے ۔ اگر کسی پلیٹ فارم پر نابالغوں کی ویڈیوز یا تصاویر اپ لوڈ یا شیئر کی جائیں تو NCMEC فوری طور پر متعلقہ ملک کی پولیس کو صارف کے آئی پی ایڈریس سمیت رپورٹ ارسال کرتا ہے جس پر سخت کارروائی کی جاتی ہے ۔ ماہرین اور پولیس دونوں اس بات پر متفق نہیں کہ اصل ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے ۔ اسمارٹ فونس ، مہنگے ڈیٹا پیکس اور مکمل آزادی دینا مسئلہ نہیں لیکن یہ ناجاننا کہ بچے ان پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ یہی اصل خطرہ ہے ۔ والدین اگر بروقت نگرانی ، رہنمائی اور کھل کر گفتگو کرنے کی عادت اپنالیں تو بچوں کو اس خاموش تباہی سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔ گھر میں موبائیل کا مکمل ماحول تبدیل کیا جائے ۔ موبائیل بند کمرہ میں دینے کا سلسلہ ختم کریں۔ اسکرین ٹائم کیلئے قوانین ہٹایئے ۔ رات میں موبائل اپنے پاس رکھیں ۔ ڈیٹا ہمیشہ محدود رکھیں۔ پورن بلاکنگ فلٹر لازمی لگایئے ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں سے کھل کر بات کریں ۔ یہ شرم نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ جن گھروں میں بچوں سے بات نہیں کی جاتی وہاں بچے باہر غلط جگہوں سے سیکھتے ہیں ۔ اس لئے ہارمونز ، جسمانی تبدیلیوں اور غلط مواد کے نقصانات پر آسان زبان میں بات کریں۔ بچوں کو سکھائیں کہ راز رکھنے کی دھمکی دینے والا ہمیشہ مجرم ہوتا ہے ۔ پورن سائیٹس کے عادی بچوں کو والدین غصہ کرنے کے بجائے ، ان کا ہاتھ تھامیں اسے شرمندہ کرنے کے بجائے سمجھائیں۔ یہ بحران ہمارے گھروں کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے ۔ ہمارے بچے خطرہ میں ہیں نہ صرف ذہنی طور پر بلکہ جسمانی اور اخلاقی طور پر بھی معاشرہ تب مضبوط ہوتا ہے جب والدین باشعور ہوں ۔ اسکول ذمہ دار ہوں پولیس فعال ہو اور میڈیا شعور بیداری کی ذمہ داری بخوبی نبھائیں۔ ٹکنالوجی نے جہاں نئی سہولتیں دی وہی بچوں کے لئے ایسے دروازے بھی کھول دیئے جن میں سے نکلنے والی روشنی نہیں بلکہ ایک دھواں ہے جو ذہین ، اخلاق اور مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے ۔ پورن کے حادثاتی آغاز سے شروع ہونے والا یہ تجسس پھر تنہائی ، ذہنی دباؤ اور آخرکار ذہنی و اخلاقی تباہی تک پہنچ رہا ہے جس کے نتیجہ میں بچوں کی زندگیاں برباد ہونے کے دہانے تک پہنچ رہی ہے ۔ ٹکنالوجی کو روکنا ممکن نہیں لیکن نسل کو برباد ہونے سے بچانا ہمارے بس میں ہے۔