مودی حکومت کی معذوری میں مسلمانوں کا رول !

   

مجید صدیقی
مودی حکومت کے دو
دوست ایسے ہی ہیں جیسے
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
غالبؔ
وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے اعلی قائدین ہمیشہ سے یہی کہتے رہے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک طرح سے یہ مسلمانوں کو پست ہمت کرنے اور اُن کی تضحیک کرنے کے مترادف تھا ۔ اب معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کیا ہے۔ مسلمان ہندوستان کی 140 کروڑ آبادی کا ایک بڑا اور اہم طبقہ ہے ملک میں 25 کروڑ مسلمان ہیں ۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کو بی جے پی نے نہ صرف پچھلے 10 برسوں سے بلکہ کانگریس نے بھی آزادی ہند کے بعد سے نظر انداز کیا ہے ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو آج کا ترقی یافتہ ہندوستان مسلمانوں کی کاوشوں اور محنت کا نتیجہ ہے ۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں ایک متوازن اور عادلانہ نظم و نسق قائم کیا ، ملک کی خوشحالی کیلئے نئے نئے اختراعی اقدامات کئے ۔ زرعی نظام ، انتظام حکومت ، عمارتوں کا خوبصورت حال ، مسلمان حکمرانوں کی مرہون منت رہا ہے ۔ ہندوستان کی ترقی میں مسلمانوں کا بہت اہم رول رہا ہے ( مسلمان بادشاہوں کا ) ۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ملک کی مجموعی ترقی Overall devlopament میں جیسے مالی ، انتظامی ، شجرکاری ( باغات ) خوبصورت عمارتوں کی تعمیر ( تاج محل ، قطب مینار )جیسے ہزاروں کارنامے مسلمان بادشاہوں نے انجام دیئے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان کی خوبصورت بنی ہے اور اس کی انفرادیت قائم ہوئی ۔ آج ہندوستان امن کا داعی اور امن کا پیمبر اور ایک متوازن اور خوبصورت ملک بن کر ساری دنیا کو راستہ دکھارہا ہے اور ایک ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر ٹھہر کر ساری دنیا کو اہنسا ، پیار و محبت ، اتحاد و یکجہتی و بھائی چارہ کا جو پیغام دے رہا ہے وہ کس کی بدولت ایسا کرسکتا ہے اس ترقی اور یکجہتی و انفرادیت کی بنیاد میں مسلمانوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے ۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں ( بادشاہوں نے) مذہب کی تبلیغ نہیں کی اور نہ ہی عوام پر مذہب تبدیل کرنے پر زور دیا ، بلکہ یہ معاملہ انہوں نے عوام پر ہی چھوڑ دیا تھا اور تقریباً سب نے اپنی رائے مسلط کی اور نہ ہی بادشاہوں نے عوام کے مذہبی معاملات میں ابتداء سے ہی دخل دیا ہے ۔ وہ صرف ملک کو ایک خوبصورت جگہ اور جنت نشاں اور امن و امان کا گہوارہ بنانے کی اور عدل و انصاف کی رسائی کو آسان بنانے کی ابتداء سے ہی کوششیں کرتے رہے ۔
اس مختصر تعارف کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنی جانوں سے زیادہ چاہا ہے اور آج بھگوا پریوار انہیں سے محبت وطن ہونے کا سرٹیفیکٹ مانگتے ہیں ۔
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ ہجوم ہے ہمارا سہارا نہیں
مسلمانوں نے ہندوستانیوں کو علم، تہذیب و ثقافت ، کلچر اور توحید کا درس دیا جو دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ملتا ۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ایک دوست کا دوسرے دوست کو کہنا کہ ’’ چڈی پہننا میں نے تمہیں سکھایا ہے ‘‘ حضرت علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
وحدت کی لے سننی تھی دنیا نے جس مکاں سے
عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں ( قریب دو سو سال سے اوپر ) ہندوستان کی دولت کو بیرون ملک انگلستان منتقل کیا اور اس نے سونے کی چڑیا کے بال و پر نوچ کر ایک مٹی کی چڑیا بنادیا تھا لیکن مسلمانوں نے اس سونے کی چڑیا کو بال پر دیئے سنوارا پرواز سکھایا اور بلندی عطا کی ۔ انہوںنے یہاں کی دولت افغانستان یا ترکی یا کسی اور ملک کو منتقل نہیں کی بلکہ یہاں کی دولت یہیں پر استعمال کی ۔
تحریک آزادی پر نظر ڈالیں تو لاکھوں مسلمان مجاہدین کے ساتھ دیگر قومی قائدین جیسے سراج الدولہ سے شروع ہو کر ٹیپو سلطان ، اورنگ زیب ، بہادر شاہ ظفر ، مولانا محمد علی ، مولانا شوکت علی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، رفیع احمد قدوائی ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا حسرت موہانی ، حکیم اجمل خان ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری ، بی اماں ، رضیہ سلطانہ ، بدر الدین طیب جی ، شہید اشفاق اللہ خاں ، مشہور صحافی مولانا باقر نے تحریک آزادی کی شمع کو اپنے ہاتھوں سے تھام رکھا تھا اور ملک کو آزادی سے ہمکنار کیا تھا ۔ تحریک آزادی کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی ہوئی ہے ۔ آزادی کی لڑائی میں ہزاروں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کئے پر اپنے وطن پر آنچ نہیں آنے دی ۔ آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم بنائے گئے اور انہوں نے ہندوستان کی تعلیمی ترقی میں ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے جیسے آئی آئی ٹی کانپور ، کھڑک پور اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور تعلیمی میدان میں اعلی سطح کی اصلاحات فرمائیں اور معیار تعلیم کو اونچا کیا ۔ سرحد پر بریگیڈیر محمد عثمان نے اور حوالدار عبدالحمید نے قابل فخر کارنامے انجام دیئے جو رہتی دنیا تک یاد رہینگے ۔ نئی نکنالوجی میں ایک ہم پیشرفت اے پی جے عبدالکلام سابق صدر جمہوریہ نے ایک میزائیل تیار کر کے ہندوستان کے وقار میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ ہندوستانی دفاعی صلاحیت میں بھی ایک اہم پیشرفت کی ہے ۔ جواگنی میزائیل ہے ۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا سب کچھ نچھاور کردیا پھر بھی بی جے پی کے قائدین کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جب مسلمانوں کو ذلیل کرنا ہوتا ہے ۔ پچھلے 10 سالوں سے مودی نے اور ان کے حواریوں نے مسلمانوں کو بہت ہراساں کیا ہے اور ان کا جینا دوبھر کردیا ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ غذاؤں پر پابندی ، لباس پر پابندی ، شاہی مساجد کو عدالتوں کے ذریعہ ہڑپ لینا ( بابری مسجد ) اور دو مساجد بھی ان کے ہاتھ پر ہیں متھرا کی مسجد اور گیان واپی مسجد اور ایک عیدگاہ پر ان کی نظر ہے ۔ مسلمانوں نے اپنی حکمرانی میں ایسی خراب اور رکیک حرکتیں نہیں کی ہیں ۔ اسلام میں دوسرے مذاہب کا احترام کرنے اور ان کے بزرگوں کا احترام کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ گھر واپسی ، طلاق ثلاثہ ، NRC اور CAA ، CNR ، CPR وغیرہ امیت شاہ اور مودی کے Pet Subjeets ہیں ۔ ان قوانین کے نفاذ کو لے کر امیت شاہ مسلمانوں کو ہراساں کرتے رہے ہیں ۔ دفعہ 370 کا کالعدم کرنا ۔ اللہ تعالی نے مودی جی کو بہت ڈھیل دی اور بہت موقع دیا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم کریں اور عوام کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں ، زبان سے تو کہتے ہیں پر عمل ندارد ہے ۔ اب سیاست مودی کیلئے ایسی ہوگئی ہے گلے کی ہڈی کہ نہ اُگلنے بنتی ہے اور نہ نگلے بنتی ہے یہ سب یزدی ہے کہ کس طرح ایک بڑے اور وسیع ترین ملک میں انتخابات میں مودی کو لاکر چھوڑ دیا ہے ۔ آگے سمندر اور پیچھے کھائی ہے ۔ انہیں دو بیساکھیوں کے بغیر آگے جانا ہے ۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ایک سال کے اندر لڑکھڑا سکتی ہے ۔ کیونکہ چندرا بابو نائیڈو ہندوستان کے عظیم شاطر سیاسی کھلاڑی ہیں اور نتیش کمار بھی ایک ماہر باز لگتے ہیں ان دونوں کے بارے میں مرزا غالب نے برسوں پہلے کہا تھا ؎
ہوئے تم دوست جس کے
اس کا دشمن آسمان کیوں ہو
اب آسمان کو دشمنی نبھانے کی ضرورت نہیں ہے ان دونوں کی دوستی ہی مودی جی کیلئے کافی ہے ۔ راہول گاندھی کو بھی اللہ تعالی نے صحیح سوچ اور عقل دی ہے انہیں چاہئے کہ وہ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کیا کریں اپنی صفوں میں آر ایس ایس کے ورکرس کی طرح کے قائدین کو شامل نہ کریں۔