عرفان جابری
آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ابوالکلام آزاد کا 11 نومبر کو یوم پیدائش ہے، جسے ملک میں ’’قومی یوم تعلیم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ زندگی میں تعلیم کی کس قدر اہمیت ہے، میرے خیال میں قارئین کرام میں سے شاید ہی کوئی ناواقف ہے۔
انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو آزادی دلانے میں جہاں قوم کی ہر برادری کا رول رہا، وہیں مسلمانوں کا کردار اور اُن کی قربانیاں مسلمہ حقیقت ہے، جسے آزادی ملنے کے بعد متعصب و تنگ نظر عناصر کے زیراثر مختلف اَدوار کی حکومتوں نے تاریخ کے اوراق سے مٹانے یا پھر توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج نوجوان نسل کی کثرت خود اپنے اسلاف کے کارناموں بلکہ اُن کے ناموں اور اُن کے بارے میں مختصر معلومات سے تک عدم واقف ہے۔
چنانچہ یہ تحریر ایسی منفرد شخصیت کے نام وقف ہے جنھوں نے نہ صرف جدوجہد اور تحریک آزادی میں موہن داس کرمچند گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سبھاش چندر بوس، محمد علی جناح و دیگر متعدد قائدین کے ہمراہ بھرپور سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، بلکہ آزادی کے بعد زائد از دس سال نہرو حکومت کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے زندگی کے کلیدی شعبے کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ہندوستانی آبادی کی صلاحیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئی اختراعی تبدیلیاں لائیں جن میں سے بیشتر آج بھی شعبۂ تعلیم کی کسوٹی مانی جاتی ہیں۔ کسی فرد میں لڑکپن سے ذہانت، قابلیت، صلاحیت اور مثبت نشانہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یکسوئی کے ساتھ محنت کرنے کی جستجو ہو تو وہ اپنی زندگی میں ’عظیم شخصیت‘ کس طرح بن سکتا ہے، اس کی عمدہ مثال مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ ان کی زندگی کے بارے میں اختصار میں معلومات پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ بالخصوص نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ مولانا آزاد کی عملی زندگی سے تحریک حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں حسب ضرورت تبدیلی لائیں۔
آزاد کی پیدائش 11 نومبر 1888ء کو مکہ مکرمہ (موجودہ سعودی عرب کا شہر) میں ہوئی، جو اُس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اُن کا حقیقی نام سید غلام محی الدین احمد بن خیرالدین ال حسینی تھا، لیکن وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے طور پر مشہور ہوئے۔ آزاد اُن کا قلمی نام رہا۔ آزاد کے والد عالم تھے اور دہلی میں اپنے نانا کے ساتھ مقیم تھے، کیونکہ اُن کے والد کا نوجوانی میں انتقال ہوگیا تھا۔ ہندوستانی غدر 1857ء کے دوران آزاد کے والد نے ہندوستان چھوڑ کر مکہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ آزاد کے والد مولانا سید محمد خیرالدین بن احمد ال حسینی نے بارہ کتابیں لکھیں، ان کے ہزاروں شاگرد رہے، اور اعلیٰ نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ آزاد کی والدہ شیخہ عالیہ بنت محمد (شیخ محمد بن ظاہر ال وتری کی بیٹی) تھیں اور شیخ محمد خود مدینہ کے نامور عالم تھے جن کی ساکھ عرب خطہ کے باہر تک پھیلی ہوئی تھی۔
مولانا آزاد نے 1890ء میں اپنی فیملی کے ساتھ کلکتہ میں سکونت اختیار کرلی۔ 13 سال کم عمری میں آزاد کی شادی کم عمر زلیخہ بیگم سے ہوئی۔ آزاد کی ابتدائی پڑھائی گھر پر ہوئی اور وہ خود سے بھی سیکھنے لگے۔ انھوں نے کئی زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی سعی کی جیسے اُردو، ہندی، فارسی، بنگالی، عربی اور انگریزی۔ انھوں نے مذہبی مسلکوں اور شریعت کے ساتھ ساتھ ریاضی، فلسفہ، عالمی تاریخ اور سائنس کی تعلیم و تربیت بھی اُستادوں سے حاصل کی جن کی خدمات اُن کی فیملی نے فراہم کئے۔ پڑھائی کے مشتاق طالب علم اور دانش کے اعتبار سے قبل از وقت نشوونما پانے والے آزاد 12 سال کے بھی نہ تھے کہ ایک لائبریری، ایک ریڈنگ روم، اور غوروخوض و مباحث کرنے والے سوسائٹی چلانے لگے تھے، انھوں نے بارہ سال کی عمر میں غزالی کی زندگی پر تصنیف پیش کرنا چاہی، وہ چودہ سال کی عمر میں ادبی جریدہ ’مخزن‘ کیلئے معلوماتی مضامین لکھنے لگے، وہ پندرہ سال کی عمر میں طلباء کی ایسی جماعت کو پڑھایا کرتے تھے جن میں سے اکثر اُن کی عمر سے دوگنے تھے، اور تعلیم کے روایتی کورس کی تکمیل سولہ سال کی عمر میں کرلی، یعنی ہم عصر طلبہ سے نو سال قبل۔ اور اسی عمر میں ایک میگزین کی اشاعت عمل میں لائی۔ ویسے وہ شاعری پر مبنی جریدہ ’نیرنگ ِ عالم‘ پہلے سے شائع کررہے تھے اور 1900ء میں بارہ سال کی عمر میں ایک ہفتہ وار کے مدیر بھی تھے۔ 1903ء میں آزاد نے ماہانہ جریدہ ’لسان الصدق‘ پیش کی جسے جلد ہی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مولانا آزاد نے قرآن و حدیث کی تفسیر اور فقہ و کلام کے اصولوں کی تشریح کرتے ہوئے کئی تصانیف تحریر کئے۔
آزاد کے تیزی سے ایسے سیاسی افکار ہوئے جن کو اُس دور کے زیادہ تر مسلمانوں نے کٹر جانا۔ وہ جلد ہی پوری طرح لیس ہندوستانی صحافی بن گئے۔ انھوں نے برطانوی راج کو نسلی امتیاز برتنے اور سارے ہندوستان میں عام آدمی کی ضرورتوں کو نظرانداز کرنے پر شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے مسلم سیاستدانوں پر بھی تنقید کی، جو قومی مفاد کے مقابل فرقہ وارانہ مسائل پر توجہ مرکوز کررہے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ علحدگی پسندی کو مسترد کردیا۔ اپنے وقت کی عام مسلم رائے کے برخلاف آزاد نے 1905ء میں تقسیم بنگال کی مخالفت کی اور انقلابی سرگرمیوں میں تیزی سے سرگرم ہوئے، جس پر انھیں نامور ہندو انقلابیوں آروبندو گھوش اور شیام سندر چکرورتی سے متعارف کرایا گیا۔ آزاد کی تعلیم اس طرز کی رہی کہ وہ عالم بنیں، لیکن اُن کی باغیانہ فطرت اور سیاست سے لگاؤ نے انھیں صحافت کی طرف لے گئے۔ آزاد نے 1912ء میں اردو ہفتہ وار ’الہلال‘ شروع کیا، اور کھلے طور پر برطانوی پالیسیوں کو لتھاڑا جبکہ عام آدمی کو درپیش چیلنجوں کو کھوجنے کی کوشش بھی کی، لیکن اس پر 1914ء میں امتناع عائد کردیا گیا۔ ہندوستانی قوم پرستی کے نظریات کو اپناتے ہوئے آزاد کی اشاعتوں کا مقصد نوجوان مسلمانوں کو آزادی اور ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے لڑائی کی حوصلہ افزائی کرنا رہا۔ آزاد نے ’الہلال‘ پر امتناع کے بعد نیا جریدہ ’البلاغ‘ شروع کیا، جس نے قومی کازوں اور فرقہ وارانہ اتحاد کیلئے اپنی سرگرم تائید و حمایت میں اضافہ کیا۔ اس دور میں آزاد خلافت ایجی ٹیشن کیلئے اپنی حمایت میں بھی سرگرم ہوئے تاکہ سلطنت عثمانیہ ترکی کے موقف کا تحفظ کیا جاسکے، جسے دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے خلیفہ کا درجہ حاصل تھا۔ ہندوستان بھر میں آزاد کی مقبولیت میں اضافے پر برطانوی حکومت نے اُن کی دوسری اشاعت کو بھی ممنوع قرار دیتے ہوئے انھیں گرفتار کرلیا۔ کئی صوبوں کی حکومتوں نے اپنے پاس ان کو داخلے سے منع کردیا اور آخرکار آزاد کو رانچی کی ایک جیل کو منتقل کیا گیا جہاں وہ یکم جنوری 1920ء تک مقید رہے۔
مولانا آزاد اپنی رہائی پر دوبارہ سیاسی ماحول میں واپس ہوگئے اور اس بار برطانوی راج کے خلاف غصہ اور بغاوت کے احساسات سے پُر تھے۔ 13 اپریل 1919ء کو امرتسر کے جلیان والا باغ میں غیرمسلح ہندوستانیوں پر انگریزوں کی فائرنگ کے ذریعے ہلاکت پر سارے ہندوستان میں جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ہندوستان کی بڑی سیاسی پارٹی ’انڈین نیشنل کانگریس‘ (آئی این سی) گاندھی جی کی قیادت میں آئی، جنھوں نے سارے ہندوستان میں جوش و خروش پیدا کیا تھا جب انھوں نے چمپارن اور کھیڈا کے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے 1918ء میں برطانوی حکام کے خلاف کامیاب بغاوت کی تھی۔ گاندھی جی نے خطہ کے عوام کو منظم کیا اور ستیہ گرہ کا اختراعی طریقہ پیش کیا جس میں مکمل عدم تشدد اور خوداکتفائی کے ساتھ اجتماعی سیول نافرمانی کو جوڑا گیا۔
کانگریس کا جائزہ لینے کے بعد گاندھی جی نے خلافت جدوجہد کی حمایت بھی چاہی تاکہ ہندو۔ مسلم سیاسی تفرقہ کو ختم کرنے میں مدد ملے۔ مولانا آزاد اور علی برادران (مولانا محمد علی اور شوکت علی) نے کانگریس حمایت کا پُرجوش خیرمقدم کیا اور عدم تعاون کے پروگرام پر مل جل کر کام کرنے لگے۔ مولانا آزاد کانگریس میں شامل ہوگئے۔ یہ دور مولانا آزاد کی اپنی زندگی میں نمایاں تبدیلی والا رہا۔ ساتھی خلافت قائدین ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خان اور دیگر کے ساتھ مولانا آزاد شخصی طور پر گاندھی جی اور اُن کے فلسفہ کے قریب ہوئے۔ تینوں نے مل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کی بنیاد ڈالی، جو اعلیٰ تعلیم کا ادارہ رہا، جس کا انتظام برطانوی مدد یا کنٹرول کے بغیر پوری طرح ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں تھا۔ مولانا آزاد اور گاندھی جی دونوں مذہب کے تئیں گہرا جذبہ رکھتے تھے اور آزاد نے اُن کے ساتھ گہری دوستی استوار کرلی۔ انھوں نے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سادہ زندگی کے اُصولوں کو اختیار کرتے ہوئے مادی دولت اور عیش و عشرت کو ٹھکرا دیا۔ وہ اپنے کپڑے کھادی استعمال کرتے ہوئے چرخہ پر بُننے لگے اور گاندھی جی کے زیرانتظام آشرم بھی جانے لگے۔ ذاتی طور پر عدم تشدد پر گہرے ایقان کے ساتھ آزاد ہم عصر قوم پرستوں جیسے جواہر لعل نہرو، چترنجن داس اور سبھاش چند ربوس کے بھی قریب ہوگئے۔
1923ء میں مولانا آزاد سب سے کم عمر صدر کانگریس منتخب کئے گئے۔ انھوں نے ناگپور میں فلیگ ستیہ گرہ کے اہتمام کی کوششوں کی قیادت کی۔ وہ 1924ء یونیٹی کانفرنس، دہلی کے صدر رہے۔ آزاد نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کرتے ہوئے گاندھی جی کے ویژن، تعلیم اور سماجی اصلاحات کو فروغ دینے کیلئے سرگرمی سے کام کیا۔ جلد ہی آزاد شعبۂ سیاست میں حوصلہ بخش شخصیت بن گئے۔ وہ اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا حصہ بنے اور کئی مرتبہ جنرل سکریٹری اور صدر کے عہدوں پر فائز رہے۔ لکھنو میں 1936ء کے کانگریس سیشن میں آزاد کا سردار پٹیل، ڈاکٹر راجیندر پرساد اور سی راج گوپال چاری کے ساتھ سوشلزم کو کانگریس کے مقصد کے طور پر اپنانے کے تعلق سے اختلاف رائے ہوا۔ آزاد نے صدر کانگریس کی حیثیت سے نہرو کے انتخاب کی حمایت کی، اور سوشلزم کی توثیق کرنے والی قرارداد کی تائید کی۔ اس عمل میں وہ نہرو، بوس، جئے پرکاش نرائن کے قریب ہوگئے۔ آزاد نے 1937ء میں نہرو کے دوبارہ انتخاب کی بھی حمایت کی۔ آزاد نے جناح اور مسلم لیگ کے ساتھ 1935ء اور 1937ء کے درمیان کانگریس۔ لیگ اتحاد اور وسیع تر سیاسی تعاون پر بات چیت کی حمایت کی تھی۔ 1938ء میں آزاد نے صدر کانگریس سبھاش بوس زیرقیادت کانگریس گروہ اور ان کے حامیوں کے درمیان ثالث کا رول ادا کیا۔ بوس کو گاندھی جی پر سخت اعتراض تھا کہ وہ انگریزوں کے خلاف ایک اور بغاوت شروع نہیں کررہے ہیں، اور انھوں نے کانگریس کو گاندھی جی کی قیادت سے دور کرنا چاہا۔
آزاد، نہرو، گاندھی جی اور پٹیل کے درمیان پُرجوش اور جذباتی مذاکرات کے بعد آخرکار 9 اگست 1942ء کو گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کا اعلان کیا۔ اس کی تائید میں آزاد ملک بھر میں ہزاروں لوگوں کو جمع کرکے ان کی ذہن سازی کرنے لگے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانیہ والوں نے اقتدار کو ہندوستانی ہاتھوں میں منتقل کرنے سے اتفاق کیا۔ تمام سیاسی قیدیوں کو 1946ء میں رہا کردیا گیا اور آزاد نے نئے دستورساز اسمبلی ٔ ہند کیلئے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی، جس نے ہندوستان کا دستور مدون کیا۔
ہندوستان کی تقسیم اور 15 اگست 1947ء کو آزادی پر پنجاب، بہار، بنگال، دہلی اور ملک کے کئی دیگر حصوں میں تشدد کی لعنت ساتھ آئی۔ بے شمار جانیں تلف ہورہی تھیں۔ مولانا آزاد نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر متاثرہ علاقوں کے دورے کئے۔ انھوں نے بڑے ہجوموں سے خطاب کرتے ہوئے امن و سکون برقرار رکھنے کا حوصلہ بڑھایا۔ بعد میں مولانا آزاد وزیراعظم نہرو کے قریبی بااعتماد، حامی اور مشیر بنے رہے، اور قومی پالیسیاں وضع میں اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے اسکول اور کالج کی تعمیر اور آفاقی ابتدائی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے بچوں اور نوجوان دلتوں کی اسکولوں میں بھرتی کے قومی پروگرام بنانے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کیلئے دو مرتبہ 1952ء (حلقہ رامپور، یوپی) اور 1957ء (حلقہ گرگاؤں، موجودہ ہریانہ) میں منتخب مولانا آزاد نے نہرو کی سماجی معاشی اور صنعتی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سماجی حقوق اور معاشی مواقع کو خواتین اور نادار ہندوستانیوں تک پہنچانے کی بھی حمایت کی۔ ’بھارت رتن‘ مولانا آزاد نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اپنی کتاب India Wins Freedom لکھنے پر توجہ دی، جو حرکت قلب پر حملہ کے سبب اُن کے انتقال (22 فبروری 1958) کے بعد شائع ہوئی۔
نہرو انھیں ’میر کارواں‘، نہایت بہادر اور شجاع شخص، ثقافت کا نفیس نمونہ قرار دیا کرتے تھے۔ گاندھی جی نے مولانا آزاد کے تعلق سے ریمارک کیا تھا کہ وہ پلاٹو، ارسطو اور فیثا غورث کے درجہ کے شخص ہیں۔ ٭
[email protected]
