ملزم خواجہ خان کی تحویل کیوں چاہئے ، سپریم کورٹ کا اے ٹی ایس سے سوال
ممبئی : مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں گرفتار عرفان خواجہ خان کی ضمانت پرر ہائی کی عرضداشت پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران دو رکنی بینچ نے یو پی حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراجن سے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا کہ انہیں ملزم عرفان خواجہ خان کی تحویل کیوں درکار ہے؟ دو رکنی بینچ کے جسٹس انردھ بوس اور جسٹس سدھانشو دھولیہ نے کہا ملزم گذشتہ بیس ماہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہے۔ملزم کی ضمانت عرضداشت پر جمعۃ علما ہند (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی تبدیلی پر پابندی نہیں ہے اور یو پی کے قانون کا دہلی میں اطلاق نہیں ہوتا اور جس شخص نے اسلام قبول کیا ہے اس نے اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور اس کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی تھی، ملزم عرفان خواجہ خان نے بس اشاروں کے ذریعہ سمجھایا تھا کیونکہ دونوں گونگے تھے۔ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے دوران بحث عدالت کو مزید بتایا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عرفان خان نے مذہب تبدیل کروایا تھا تو اس پرملک سے جنگ کرنے کی دفعہ یعنی کے 121-A کااطلاق کیسے ہوتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ عرفان نام کے کسی دوسرے شخص کے اکاؤنٹ کی تفصیل چارج شیٹ میں شامل کی گئی ہیں اور اسے ملزم عرفان خواجہ خان سے منسوب کیا جارہا ہے۔سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو مزیدبتایا کہ عرفان خان مرکزی حکومت کے زیر انصرام منسٹری آف ومن اینڈ چلڈرن ڈیولپمنٹ میں بطور ترجمان کام کرتا ہے نیز یو پی اے ٹی ایس نے ملزم پر جو الزام لگایا ہے کہ ہ وہ گونگے بچوں کو عمر گوتم کے کہنے پر اسلام قبول کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ وہ عمر گوتم کو جانتے بھی نہیں ہیں اور نوئیڈا ڈیف سوسائٹی سے ان کا کوئی تعلق بھی نہیں۔سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت سے مزید کہا کہ متنازعہ قانون اتر پردیش پروہبیشن آف ین لاء فل کنورڑن آف ریلیجن ایکٹ کے تحت ملزم کو زیادہ سے زیادہ تین سال تک کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ ملزم 20/ ماہ سے زائد کا عرصہ جیل میں گذار چکا ہے لہذ ا ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے۔ایڈیشنل سالیسٹرجنرل آف انڈیا کے ایم نٹراجن نے ملزم عرفان خان کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی سخت لفظوں میں مخالفت کی اور کہا کہ ایک منظم طریقے سے مذہب تبدیل کروانے والے گروہ کا ملزم اہم حصہ ہے اور ملزم نے اس کی سرکاری نوکری کا غلط فائدہ اٹھاکر غیر مسلم گونگے لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے میں مجبور کیا۔ایڈیشنل سالیسٹر جنر ل آف انڈیا نے عدالت کو مزید بتایا کہ لکھنؤ ہائی کورٹ نے مقدمہ کی سماعت ایک سال میں مکمل کیئے جانے کا حکم جاری کیا اور ہماری کوشش ہے کہ مقدمہ کی سماعت چھ سے آٹھ مہینوں میں مکمل کرلی جائے لہذا عدالت ملزم کو ضمانت پر رہا نہ کرے۔اسی درمیان دو رکنی بینچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنر ل ایڈوکیٹ نٹراجن سے پوچھا کہ وہ عدالت کو بتائیں انہیں ملزم عرفان خان کی مزید تحویل کیوں درکا ر ہے؟ عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر ایڈیشنل سالیسٹر جنر ل مسکرا کر کہنے لگے انہیں دو ہفتوں کا وقت دیا جائے تاکہ وہ یو پی اے ٹی ایس سے مشورہ کرسکیں، دو رکنی بینچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنر ل کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے معاملے کی سماعت 22/ فروری تک ملتوی کردی۔دوران سماعت عدالت میں جمعی? علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہرش پراشر، ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ شاہدندیم،ایڈوکیٹ عارف علی خان، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ شیخ ارشد و دیگر موجود تھے۔واضح رہے کہ گذشتہ سال ا تر پردیش انسداد دہشت گرد دستہ ATSنے عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر قاسمی، مولاکلیم صدیقی سمیت کل 17ملزمین کو جبراً تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا ہیکہ وہ پیسوں کا لالچ دے کر ہندوؤں کا مذہب تبدیل کراکے انہیں مسلمان بناتے تھے اور پھر ان کی شادیاں بھی کراتے تھے۔ پولس نے ممنو ع تنظیم داعش سے تعلق اور غیر ملکی فنڈنگ کا بھی الزام عائد کیا ہے۔اس مقدمہ میں ابھی تک کسی بھی ملزم کی ضمانت نہیں ہوئی ہے، ملزم عرفان پہلا ملزم ہے جس نے سپریم کورٹ سے رجو ع کیاہے۔