’’مہنگائی روک دو ، ورنہ گدی چھوڑ دو‘‘

   

برندا کرت
مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن کا ایک ٹوئٹ حال ہی میں منظر عام پر آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافہ سے غریبوں کی بہ نسبت امیر متاثر ہوئے ہیں، لیکن بعد میں تعلقات عامہ کی ہماری مرکزی ایجنسی پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کو آگے بڑھ کر یہ وضاحت کرنی پڑی کہ مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن کی تصویر کے ساتھ جو ٹوئٹ گشت کررہا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سال 2022ء میں مہنگائی غریبوں سے زیادہ امیروں کو متاثر کرے گی، جہاں تک وزیر فینانس کی جانب سے اس طرح کا بیان دینے کا معاملہ ہے، بالکل غلط ہے، انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سچ تھا یا نہیں؟ سوشیل میڈیا پر ایک اور پوسٹ بہت زیادہ گشت کرتا ہوا دکھائی دیا جس میں ماہانہ کی بنیاد پر اقتصادی جائزے کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا۔ بہرحال اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ایک ایسے وقت اضافہ ہورہا ہے، جبکہ روزگار زندگی چلانے کے مواقع اور آمدنی کا فیصد اور شرح گرتی جارہی ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کی جانب سے کئے گئے سرویز سے جو حقائق منظر عام پر آئے اس میں انتہائی خطرناک اور صدمہ انگیز حقیقت کا انکشاف کیا گیا کہ ملک میں 17% گھرانوں کی ماہانہ اوسط آمدنی سال 2020-21ء میں صرف 8,600 رہی جبکہ تقریباً 62% گھرانوں کی ماہانہ اوسط کمائی صرف 14,400 درج کی گئی۔ اس قدر کم آمدنی میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر تباہ کن رہا۔
تاہم غریبوں کے متاثر ہونے کا ذمہ دار وزیر فینانس کو کیوں ٹھہرایا جارہا ہے؟ وہ تو صرف اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چلتی ہیں، اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل کرتی ہے اور اپنے لیڈر کی ہدایت پر عمل کرتی ہے اور ان کا لیڈر ان سے کئی قدم آگے ہے۔ ایک مرتبہ تو مودی جی نے یہ کہہ دیا کہ ہم دنیا کو کھلائیں گے یعنی گیہوں دوسرے ملکوں کو زیادہ قیمتوں پر فروخت کریں گے۔ ایسا کرنے کو یہ کہنا کہ دنیا کو کھلائیں گے، بالکل غلط ہے، لیکن اس طرح کے بیانات سے ہمارے وزیراعظم کی تعلقات ِ عامہ سے متعلق صلاحیتوں کو اظہار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں گے کہ پکوان گیاس کے 14.2 کیلوگرام سلنڈر کی قیمت میں پچھلے ایک سال کے دوران تقریباً 480 روپئے کا اضافہ ہوا اور فی سلنڈر قیمت 1000 روپئے سے زیادہ کردی گئی جو اُجولا اسکیم کا مذاق ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس حکومت میں گیاس سلنڈرس پر دے جانے والی سبسڈی گزشتہ دو برسوں سے روک دی گئی ہے۔ اس معاملے میں قبائیلی طبقات کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مثال کے طور پر اسپیشل ٹرائبل کمپونینٹ میں بجٹ 2022-23ء کیلئے گیاس سلنڈرس پر سبسڈی کی جو گنجائش رکھی گئی ہے، اسے 1,064 کروڑ روپئے سے کم کرکے صرف 172 کروڑ روپئے کردیا گیا جس سے دیہی علاقوں کی خواتین بہت زیادہ متاثر ہوں گی اور ان کی بچت پر اثر پڑے گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر مختلف ڈیوٹیز اور محاصل کے ذریعہ پچھلے چار برسوں کے دوران ہر سال اوسطاً دیڑھ لاکھ کروڑ روپئے کی آمدنی بڑھائی ہے اور اس نے اس آمدنی کو ریاستوں کے ساتھ شیئر نہ کرنے کیلئے CESS کی راہ استعمال کی ہے۔ اگر حکومت کو مہنگائی کے اثرات کے بارے میں فکر لاحق ہو تو پھر اسے پٹرول اور ڈیزل پر عائد کی گئی ڈیوٹیز اور محاصل کے بوجھ کو کم کرنا ہوگا، لیکن اسے تو غریبوں کی کوئی فکر نہیں۔ حکومت نے اس قانون پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کے تحت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کی بات کی گئی ہے اور پھر نئے قانون کے نئے ورژن میں درحقیقت 50% تک قیمتوں میں اضافہ کو قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ قانون دو سال قبل پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کرایا گیا۔ حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں بتایا گیا کہ گوتم اڈانی کی کمپنی ‘Adani Wilmer’ کی آمدنی میں زیادہ تر خوردنی تیلوں کی فروخت کے باعث 46% اضافہ ہوا ہے۔ اس کمپنی کا خوردنی تیل کی صنعت پر 20% قبضہ ہے۔ محاصل سے قبل اس کے منافع میں 40% اضافہ دیکھا گیا۔ کیا یہ حکومت کی فیاضی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کے حساس شعبوں میں صرف چند کمپنیوں کو اجارہ داری اور ترقی کی اجازت دے رہی ہے اور انہیں قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کا اختیار بھی دیتی جارہی ہے۔ حکومت فیر پرائس شاپ کے ذریعہ اشیائے ضروریہ کی سربراہی سب کو یقینی بنائیں تو پھر سستے داموں میں لوگوں کو یہ چیزیں خریدنے کا موقع ملے گا۔ ایسا ہی ایک طریقہ کیرلا میں ای کے نائنار کی حکومت میں کیا گیا تھا جس کے تحت 13 اشیاء کو رعایتی قیمتوں پر سربراہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر اوپن مارکٹ میں شکر کی قیمت 40 روپئے فی کلو تھی تب حکومت نے سبسڈی کے بعد 22 روپئے فی کلو شکر فروخت کی۔ اسی طرح چنے کی دال اوپن مارکٹ میں 110 روپئے کلوگرام تھی لیکن حکومت نے سبسڈی کے ذریعہ 74 روپئے فی کلو گرام فروخت کی۔ تور کی دال جو اوپن مارکٹ میں 120 روپئے فی کلوگرام فروخت کی جارہی تھی ، سبسڈی کے بعد اسے 65 روپئے فروخت کیا گیا۔ مرچ 140 روپئے اوپن مارکٹ میں فی کلو فروخت کی جاتی تھی، لیکن اسے 75 روپئے فی کلو فروخت کیا گیا۔ اگر حکومت سنجیدہ ہو تو یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ بی جے پی قائدین 2009ء سے پہلے پارلیمنٹ میں یہ نعرے لگاتے تھے ’’مہنگائی کو روک دو ، ورنہ گدی چھوڑ دو‘‘ اور یہ نعرہ اُن لوگوں نے کمیونسٹوں سے مستعار لیا تھا۔