کیا ہم سرکاری اسکیموں کیلئے اہل نہیں ہیں؟30 سالہ جسمانی معذور بیٹے کے والدین کا حکومت سے سوال
حیدرآباد۔ 29 اپریل (سیاست نیوز) ایک مجبور اور بے بس ماں ، ایڈیشنل کلکٹر روہت سنگھ کے سامنے اپنے معذور بیٹے کے ساتھ رجوع ہوئی اور حکومت کی فلاحی اسکیموں سے فائدہ پہنچانے یا پھر بیٹے کو موت دینے کی فریاد کی۔ جنگاؤں بلدیہ کے 21 وارڈ کے ساکن ملیا اور لکشمی کو ایک بیٹا سائی اور بیٹی ہے۔ اس وقت بیٹے کی عمر 30 سال ہے۔ پیدائش ہی سے بیٹے کے ہاتھ پیر مفلوج ہیں جس کی وجہ سے وہ اُٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں۔ اس کے والد ایم سی ایچ میں واٹر مین کی طرح خدمات انجام دیتے ہیں جبکہ ماں سائی بابا مندر میں مزدوری کرتی ہے۔ اگر میاں بیوی دونوں کام نہیں کریں تو گھر کا اخراجات اور بچوں کی پرورش ہی ممکن نہیں۔ دونوں کے کام پر جانے پر بچے کی دیکھ بھال اور مدد کرنے کیلئے کوئی نہیں رہتا۔ حکومت کی جانب سے بیٹے کو جو معذوری پینشن 4 ہزار روپئے مل رہا ہے، وہ اس کے ڈائپرس کیلئے بھی کافی نہیں ہوتے۔ اس کی دوائیں اور ماہانہ طبی اخراجات کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اس فیملی کی زندگی کرایہ کے گھر میں گزر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے سربراہ کی جانے والی مفت برقی کیلئے درخواست دینے پر بھی اس درخواست کو قبول نہیں کیا گیا۔ اندرماں مکان کیلئے درخواست داخل کی گئی تو وہ بھی تاحال منظور نہیں ہوئی۔ ایسے میں ہمارے خاندان کا گذارہ انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ پھر معذور لڑکے کی پرورش دن بہ دن مالی بوجھ بنتا جارہا ہے۔ حکومت ہمارے خاندان کیلئے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرے یا پھر میرے معذور بیٹے کو موت دیتے ہوئے ہماری زندگی کو آسان بنادے۔ پیر کو کلکٹریٹ میں منعقد ہونے والے گریوینس (شکایتی پروگرام) میں ملیا اپنے بیٹے کو پیٹھ پر اُٹھائے پہونچا اور ایڈیشنل کلکٹر سے سوال کیا کہ کیا ہم سرکاری اسکیموں کیلئے اہل نہیں ہیں؟ اگر فلاحی اسکیموں سے ہمیں فائدہ نہیں پہونچایا جاتا ہے تو پھر حکومت ہمارے بیٹے کو موت کی نیند سلا دے، یہ کہتے ہوئے معذور بیٹا سائی کو زمین پر سلایا اور زار و قطار رونے لگی جس پر ایڈیشنل کلکٹر روہت سنگھ نے فوری متعلقہ عہدیداروں کو ان کے مسائل حل کرنے کی ہدایت دی۔2