حیدرآباد : 10 جولائی (سیاست نیوز) میڈیکل شاپس میں فارماسسٹس ان کے بزنس پارٹنرس کے طور پر ہوتے ہیں لیکن میڈیکل شاپس میں دوا کے استعمال کے بارے میں کسٹمرس کو بتانے کیلئے فارماسسٹس کو مامور نہیں کیا جاتا ہے۔ دراصل فارماسسٹس مریضوں کو یہ بتانے کیلئے کہ دوا کو کس طرح استعمال کرنا چاہئے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ہم سرکاری دواخانوں میں فارماسسٹس کو کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن میڈیکل شاپس اور خانگی دواخانوں میں ان کوالیفائیڈ اشخاص فارماسسٹس کے طور پر کام کررہے ہیں اور ایسا سرکاری عہدیداروں کی سستی اور عدم توجہ کی وجہ ہورہا ہے۔ غیرمنقسم ضلع محبوب نگر میں کوئی 2000 میڈیکل شاپس ہیں لیکن صرف 500 شاپس ہی میں کوالیفائیڈ فارماسسٹس کو رکھا گیا ہے اور باقی میڈیکل شاپس ’بے نامیز‘ کے نام سے چلائے جارہے ہیں۔ میڈیکل شاپس میں فارماسسٹس کو مقرر کرنے کے معاملہ میں عہدیدار کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ میڈیکل شاپس جنہیں فارماسسٹس کی جانب سے چلایا جانا چاہئے ان کوالیفائیڈ ٹریڈرس کی جانب سے چلائے جارہے ہیں۔ ایسے کئی لوگ ہیں جو دوا کا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے مبینہ طور پر بیمار ہوگئے اور ان کی زندگی خطرہ میں پڑ گئی۔ یہ الزام ہیکہ میڈیکل شاپس چلانے والے عوام کی صحت سے زیادہ ان کے فائدہ اور منافع پر توجہ دیتے ہیں۔ یہ میڈیکل شاپس فارمیسی گرائجویٹس کو ان کے بزنس پارٹنرس بناتے ہیں لیکن ان کی شاپس میں کوالیفائیڈ فارماسسٹس کو ملازم رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں۔ یہ الزام بھی ہیکہ یہ میڈیکل شاپس اس کوتاہی کیلئے ہر ماہ متعلقہ عہدیداروں کو مبینہ طور پر رشوت بھی دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ فارمیسی پروسیجر ایکٹ 2015ء کے مطابق عہدیداروں کو اس طرح کے میڈیکل شاپس کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہئے لیکن عہدیدار اس طرح کے میڈیکل شاپس کے حلاف نرمی کا رویہ اختیار کررہے ہیں۔
کوالیفائیڈ فارماسسٹس میڈیکل شاپس میں ان کے سرٹیفکیٹس رکھ کر ماہانہ 1500 تا 2000 روپئے حاصل کرتے ہیں۔ ان میں گورنمنٹ سرویس میں رہنے والے شامل ہیں۔ بیروزگار فارماسسٹس نے حکومت کے عہدیداروں سے اپیل کی کہ اس معاملہ میں جامع تحقیق کی جائے اور میڈیکل شاپس میں کام کرنے والے ان کوالیفائیڈ اشخاص کو سزاء دی جائے۔
