ظفر آغا
وزیر اعظم نریندر مودی گھبرائے ہوئے ہیں۔ پچھلے ہفتے وزیر خزانہ پیوش گوئل نے تین ماہ کے لیے جو بجٹ پیش کیا اس سے بی جے پی کی گھبراہٹ ظاہر ہے۔ یہ مودی حکومت کا آخری بجٹ تھا۔ دراصل قوانین و ضوابط کے اعتبار سے اس کو بجٹ کہا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ مودی حکومت کا خاتمہ مئی 2019 میں ہو جائے گا۔ پچھلے سال کا بجٹ مارچ 2019 میں ختم ہوگا۔ اس اعتبار سے مودی حکومت کو محض اپریل اور مئی 2019 یعنی دو ماہ کے لیے حکومت کے خرچ اور ان کے ضوابط کے لیے پارلیمنٹ میں ایک ’ووٹ آن اکاؤنٹ‘ پیش کرنا تھا۔ لیکن مودی حکومت نے تمام ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک بھرپور بجٹ پیش کیا جو بجٹ کم اور بی جے پی کا سنہ 2019 کا مینی فیسٹو زیادہ تھا۔ کسانوں کو ہر سال 6000 روپے یعنی تقریباً 17 روپے روزانہ دینے کا اعلان، اوسط طبقہ کو 5 لاکھ سالانہ آمدنی تک انکم ٹیکس سے چھوٹ، 60 سالہ غریب طبقہ کے افراد کو 3000 روپے کی پنشن، الغرض عوام کا ووٹ حاصل کرنے والے اس طرح کے تمام اعلانات بجٹ میں کیے گئے۔
اس قسم کے بجٹ کے آخر معنی کیا ہیں! ظاہر ہے کہ مودی حکومت کو اپنے چار برسوں کے کام کاج پر اعتبار نہیں اور اب حکومت گھبرائی ہوئی ہے۔ اس لیے اگلے لوک سبھا انتخابات سے دو تین ماہ قبل عوام کو کچھ لالچ دے کر ان کا ووٹ حاصل کرنے کی آخری وقت میں کوشش ہو رہی ہے۔ یعنی مودی حکومت کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اس کے پاؤں تلے زمین کھسک رہی ہے، اور اس کے آثار واضح ہیں۔ کیونکہ گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد سے اب تک بی جے پی کہیں بھی اسمبلی انتخاب نہیں جیت سکی ہے۔ ابھی پچھلے ماہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں سے ایک ریاست میں بھی بی جے پی نہیں جیتی۔ اور پھر راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسے بی جے پی کے قلعے اس کے ہاتھوں سے نکلنے کے بعد پارٹی اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملک کی معیشت خستہ حال ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے خود حکومت کے ذرائع سے ملک میں روزگار کے جو اعداد و شمار منظر عام پر آئے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ ملک کا نوجوان جن حالات سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ملک میں روزگار کی صورت حال پچھلے 45 برسوں میں سب سے خراب ہے اور ایسی بدحالی کبھی نہیں ہوئی جیسی مودی کے چار برسوں میں ہوئی ہے۔ بھائی حال یہ ہے کہ کہیں روزگار ہی نہیں ہے، روزگار آئے تو آئے کہاں سے! ملک میں پیسہ ہی نہیں ہے۔ نوٹ بندی کے بعد سے کاروبار بند پڑے ہیں۔ جب کاروبار ہی نہیں ہوگا تو پھر روزگار کہاں سے آئے گا۔ یہی حال کسانوں کا ہے جو خودکشی پر آمادہ ہیں۔
الغرض ملک بدحال ہے۔ اس صورت حال میں مودی حکومت بجٹ کے ذریعہ لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن دو مہینے کے اندر مودی کے اس بجٹ سے عوام کے کتنے آنسو پونچھے جائیں گے! ظاہر ہے کہ ملک جس معاشی بدحالی سے دو چار ہے اس سے دو ماہ کیا، دو برسوں میں بھی نجات نہیں ملنے والی ہے۔ یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے کیونکہ نہ تو نریندر مودی اور نہ ہی سَنگھ 2019 میں اقتدار چھوڑنے کو راضی ہیں۔ مودی تو خود اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 2022 تک وزیر اعظم رہیں گے۔ پھر سنگھ کو معلوم ہے کہ اگر مودی پھر برسراقتدار نہیں آئے تو اس کا ہندو راشٹر کا خواب جلد شرمندۂ تعبیر ہونا مشکل ہو جائے گا۔ اب معاشی کرشمہ ہو نہیں سکتا ہے، ملک کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ مودی کہیں اسمبلی انتخاب جیت نہیں پا رہے ہیں، تو پھر اگلا لوک سبھا انتخاب کیسے جیتا جائے!
اب نریندر مودی اور سَنگھ کے پاس محض ایک حربہ بچا ہے، اور وہ ہے گجرات ماڈل۔ آخر یہ گجرات ماڈل کیا ہے! دراصل گجرات میں بھی نریندر مودی نے ترقی کے وہ خواب دکھائے تھے کہ جس کا اب ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وہاں گجراتیوں کی ترقی تو ہوئی نہیں، مودی کے چہیتے سرمایہ دار اڈانی ہزاروں کروڑ کے مالک ضرور بن بیٹھے۔ لیکن پھر بھی مودی انتخابات جیتتے رہے وہ کیسے! دنیا واقف ہے کہ گجرات میں مسلم منافرت کا جال بچھا کر مودی نے وہاں تین اسمبلی انتخابات جیتے۔ بس یہی ہے گجرات ماڈل۔ یعنی پہلے عوام کو ترقی کا خواب دکھا کر اقتدار حاصل کرو۔ جب ترقی نہ ہو سکے تو پھر سنہ 2002 جیسے گجرات فسادات کروا کر خود ہندو ہردے سمراٹ بن جاؤ۔ مسلم منافرت میں ہندو اکثریت ترقی کا خیال چھوڑ کر ہندو ہردے سمراٹ کو ووٹ ڈالتی رہے گی اور بس اقتدار چلتا رہے گا۔
نریندر مودی بخوبی واقف ہیں کہ ترقی کے جو خواب انھوں نے 2014 میں ہندوستانی عوام کو دکھائے تھے وہ خواب تو چکناچور ہو چکے ہیں۔ اب مودی اور سَنگھ کے پاس بس مسلم منافرت کا داؤ بچا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جس وقت مودی حکومت پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کر رہی تھی، عین اسی وقت الٰہ آباد میں کمبھ میلے میں سَنت سماج وشو ہندو پریشد کی ایما پر ایودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے کا پلان طے کر رہا تھا۔ اور اسی میٹنگ کے مہمان خصوصی خود سَنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت تھے۔ الٰہ آباد سے جو خبریں موصول ہوئی ہیں اس سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ایودھیا میں اس ماہ کے آخر میں مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو سکتا ہے۔ یعنی اس بات کے واضح امکان ہیں کہ آنے والے ایک دو ماہ کے اندر پورے ملک اور بالخصوص ہندی علاقے کو سنہ 2002 کے گجرات میں تبدیل کر دیا جائے۔ فسادات کی ایسی آگ بھڑکائی جائے کہ نوجوان اپنی بے روزگاری، کسان اپنی فاقہ کشی اور دکاندار اپنا گھاٹہ بھول کر خود کو محض رام بھکت محسوس کرے اور لوک سبھا انتخابات میں ہندو ہردے سمراٹ مودی کو اپنا ووٹ ڈال دیں۔
جی ہاں، مودی حکومت کا آخری بجٹ پیش ہو چکا۔ مودی حکومت پچھلے چار برسوں میں پوری طرح ناکام ہو کر عوام کا اعتماد بھی کھو چکی۔ ان حالات میں دوبارہ اقتدار حاصل کر پانا مودی کے لیے ناممکن نظر آتا ہے۔ نریندر مودی کے پاس اب ایک ہی حربہ بچا ہے اور وہ ہے منافرت کی سیاست کا حربہ۔ مودی کی سیاست کا عروج گجرات فسادات کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ اب جب حالات مشکل ہیں تو مودی پھر اسی گجرات ماڈل پر واپس جا سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ نریندر مودی اور سَنگھ 2022 تک اقتدار میں رہنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔