آخری ریڈی چیف منسٹر ہونے کی پرواہ نہیں، سماجی انصاف کیلئے طبقاتی سروے ، مخالفین کو چیف منسٹر ریونت ریڈی کا کرارا جواب
حیدرآباد 14۔فروری (سیاست نیوز) چیف منسٹر ریونت ریڈی نے کہا کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں اگر وہ تلنگانہ کے آخری ریڈی چیف منسٹر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی قیادت سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کیلئے ایک پابند ڈسپلن چیف منسٹر کی طرح اپنی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ طبقاتی سروے میرے لئے یا میرے عہدہ کیلئے نہیں ہے بلکہ سماجی انصاف کے مقصد سے تلنگانہ میں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ لاکھ مخالفتوں کے باوجود انہوں نے سروے کی تکمیل کرکے مختلف طبقات کی حقیقی آبادی کا پتہ چلانے کی کوشش کی ہے۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ میں اپنے قائد کو مثالی تصور کرتے ہوئے پارٹی کارکن کی طرح کام کرنے تیار ہیں۔ چیف منسٹر آج گاندھی بھون میں طبقاتی سروے اور ایس سی زمرہ بندی کے مسئلہ پر پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے موقع پر خطاب کر رہے تھے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرمارکا نے پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے ذریعہ سروے کی تفصیلات پیش کی۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی نے کہا کہ حکومت نے مکمل شفافیت کے ساتھ سروے کا اہتمام کیا ہے اور سروے میں کوئی خامیاں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سروے کے بارے میں گمراہ کن پروپگنڈہ کیا گیا تو اس سے پسماندہ طبقات کو نقصان ہوگا۔ کانگریس قائد راہول گاندھی نے قومی سطح پر طبقاتی سروے کا پارلیمنٹ میں مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ نریندر مودی اور کے سی آر مل کر قومی سطح پر سروے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر نے انکشاف کیا کہ نریندر مودی پیدائشی بی سی نہیں ہیں۔ انہوں نے 2001 میں چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد اپنے طبقہ کو قانونی طریقہ سے بی سی فہرست میں شامل کرلیا۔ اس طرح وہ حقیقی بی سی نہیں بلکہ کنورٹیڈ بی سی ہیں۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ بی سی طبقات سے وابستگی کے دعویٰ کے باوجود نریندر مودی کی ذہنیت اعلیٰ طبقات کی ہے اور وہ پسماندہ طبقات کے مخالف ہیں۔ چیف منسٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بی سی تحفظات میں اضافہ کیلئے گنجائش رکھی ہے کہ اعداد و شمار پیش کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سروے کی صد فیصد تکمیل کیلئے حکومت نے 16 تا 28 فروری موقع فراہم کیا ہے۔ کے سی آر ، کے ٹی آر اور ہریش راؤ کی جانب سے سروے میں حصہ نہ لینے کا ذکر کرکے چیف منسٹر نے بی سی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ تینوں قائدین کی قیامگاہوں تک پہنچ کر انہیں سروے میں حصہ لینے دباؤ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ سروے میں حصہ نہ لینے پر سماجی بائیکاٹ کی سزا دی جانی چاہئے ۔ انہوں نے بی آر ایس قائدین پر تنقید کی اور کہا کہ کانگریس حکومت کے ہر فیصلہ کی مخالفت کرنا اپوزیشن کی عادت بن چکی ہے۔ طبقاتی سروے اور ایس سی زمرہ بندی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ مختلف زمرہ جات کے تحت پسماندہ طبقات کی تفصیلات حاصل کی گئیں جس کے تحت بی سی طبقات کی مجموعی آبادی 56.33 فیصد درج کی گئی ہے۔ انہوں نے بی آر ایس قائدین سے کہا کہ سابق میں کئے گئے سروے کی تفصیلات منظر عام پر لائے بغیر تازہ ترین سروے کو نشانہ بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بی آر ایس دور حکومت میں جامع خاندانی سروے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن اس کی تفصیلات برسر عام نہیں کی گئیں۔ چیف منسٹر نے کہا کہ مکمل شفافیت اور سائنٹفک انداز میں سروے کا اہتمام کیا گیا۔ کے سی آر پر تنقید کرکے چیف منسٹر نے کہا کہ طبقاتی سروے میں حصہ نہ لینے والے کے سی آر خاندان کو تلنگانہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم دوسری مرتبہ کے سی آر ، کے ٹی آر اور ہریش راؤ کو سروے میں حصہ لینا چاہئے ۔ چیف منسٹر نے سروے میں بی سی اقلیت کی آبادی کے تعین پر بعض گوشوں سے اعتراضات کے جواب میں کہا کہ بی سی ای گروپ کو 4 فیصد تحفظات حاصل ہے جس کے نتیجہ میں اقلیتوںکی آبادی کا تعین کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر ایس دور حکومت میں صرف ایک دن میں ریاست بھر میں سروے کیا گیا جس کی تفصیل سے عوام واقف نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گمراہ کن اعداد و شمار کے سبب سروے کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ 4000 سرکاری ملازمین نے سروے میں حصہ لیا۔ وزراء پر مشتمل کابینی سب کمیٹی تشکیل دی گئی جنہوں نے 45 دنوں تک سروے کی مکمل نگرانی کی۔ ہر گھر کو عہدیدار چار مرتبہ پہنچے اور تفصیلات کو حاصل کیا۔ 36 ہزار ڈیٹا انٹری آپریٹرس کے ذریعہ تفصیلات کو محفوظ کیا گیا ہے ۔ چیف منسٹر نے کہا کہ طبقاتی سروے کی مخالفت کرتے ہوئے نریندر مودی اور کے سی آر بی سی طبقات کو تحفظات سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر طبقاتی سروے کیلئے کانگریس پارٹی مرکز پر دباؤ بنارہی ہے۔ انہوں نے بی سی طبقات اور ان کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ سروے میں حصہ نہ لینے والے بی آر ایس اور بی جے پی قائدین سے سوال کریں۔ صدر پردیش کانگریس مہیش کمار گوڑ نے بھی مخاطب کیا۔ اس موقع پر ریاستی وزراء ، ارکان اسمبلی و کونسل اور ضلع کانگریس صدور موجود تھے۔1