ہندو مسلم راجاؤں کی حکمرانی میں رعایا شیر و شکر کے ساتھ رہتے تھے، مدینہ ایجوکیشن سنٹر نامپلی پر سمینار، ممتاز مؤرخ رام پنیانی و دیگر کا خطاب
حیدرآباد۔5اکٹوبر(سید اسماعیل ذبیح اللہ )انگریزوں نے عظیم ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے تین ادوار میںتاریخ کو تقسیم کیا۔ پہلا دور ہندو حکمرانی سے منسوب ہوا جبکہ دوسرا دورمسلم حکمرانی سے اور تیسرے دور کو انہوں نے انگریزوں کا ترقی یافتہ دور کے حوالے سے پیش کرتے ہوئے تاریخ میں بہت ساری پیچیدگیاں پیدا کیں اور اس کام میںآر ایس ایس او ردیگر ہندوتو وادی تنظیموں نے مزید بگاڑ پیداکیا۔ممتاز مورخ اور سماجی جہدکار رام پنیانی نے مدینہ ایجوکیشن سنٹر نامپلی میں آل انڈیا پروفیشنل کانگریس اکیڈیمیا ورٹیکل کے زیر اہتمام ’’نصابی کتب میں تاریخ کی تحریف اور اس کے اثرات‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سمینا ر سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔شعبہ صحافت کی ریٹائرڈ پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی پروفیسر پدماجا شاہ‘ آل انڈیا پروفیشنل کانگریس اکیڈیمیا ورٹیکل قومی صدر ڈاکٹر کنچن اور چیرمین ایجوکیشن کمیشن تلنگانہ ریٹائرڈ ائی اے ایس اکانوری مرلی نے بھی اس عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔مسٹر رام پنیانی نے اپنی تقریر کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ آج انگریزوں کی اسی تاریخ کو آگے بڑھاتے ہوئے فسطائی طاقتیں ہندو دور حکمرانی کو ہندوئوں سے اور مسلم دور حکمرانی کو مسلمانوں سے جوڑ کر دونوں ( ہندواور مسلمانوں) کے درمیان نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حالانکہ مسلمانوں کے دور حکمرانی میں جب کبھی ہندو بادشاہ سے جنگ ہوتی تو لڑائی راجائوں میںہوتی مگر رعایہ شیر وشکر کی طرح ایک ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ مورخین نہیںہونے کے باوجود مجاہدین جنگ آزادی مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی تاریخی کتابوں میں ہندوستان کے متعلق جو تحریر کیاہے دراصل وہی حقیقی ہندوستان ہے۔انہوںنے کہاکہ گاندھی جی نے اپنی کتاب میں تحریر کیاہے کہ ’’ہندو راجائوں کے دور میںمسلمان سکون کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اور مسلمان راجائو ں کے دور میں ہندو پرسکون زندگی گذارتے تھے‘‘۔ جبکہ پنڈت نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میںمیں پہلی مرتبہ گنگا جمنی تہذیب کے لفظ کا استعمال کیاہے۔رام پنیانی نے کہاکہ 6ڈسمبر1992کے بعد مجھے تاریخ کے مطالعہ میںدلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ بابری مسجد کی شہادت کے افسوس ناک واقعہ کے بعد ہی تاریخی حقائق میںدلچسپی پیدا ہوئی اور یہ انکشاف ہوا کہ بھگوان رام کے جائے پیدائش کے متعلق بے شمار دعوی خود ہندوسنتوں کی جانب سے کئے جاتے ہیں۔ایودھیا میںایسے بے شمار رام مندر موجود ہیںجن کا دعوی ہے کہ بھگوان رام اسی مقام پر پیدا ہوئے ہیں جبکہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اُس سارے فیصلے میںکہیں پر بھی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کرنے کا کوئی تذکرہ نہیںہے۔ملک میںنفرت کابازار گرم کرنے اور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے واقعات 1977میں جب جنتا پارٹی کی حکومت تشکیل پائی اور وزیر اطلاعات ونشریات کے طورپر لال کرشنا اڈوانی نے جائزہ لیاتب انہو ںنے کہاکہ شاکھوںسے وابستہ لوگوں کو اپنے محکمے میںشامل کرنا شروع کیا ۔نصابی اور زمینی سطح پر تاریخ کو مسخ کرنے کی اس شروعات کے بعد 2003میں جب نریندر مودی چیف منسٹر گجرات بنے تو انہو ںنے گجرات میں سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لئے مدعو کیا اور انہیں میڈیا پر اپنا کنٹرول بڑھانے کا مشور ہ دیا جس کے بعد آہستہ آہستہ ملک کے سارے میڈیا پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہوگیا اور جو صحافی فروخت نہیںہوئے یا تو انہیں بے روزگار کردیاگیا یا پھر اس نیوز چیانل پر قبضہ کرتے ہوئے سرمایہ کاروں نے خبروں کی پالیسیاں ہی تبدیل کردی ۔رام پنیانی نے مزید کہاکہ جہاں تک ہندو اور مسلم راجائوں کے درمیان جنگوں کی بات ہے تو یہ جنگ مذہب کی بنیاد پر ہرگز نہیں تھی۔یہ جنگ درحقیقت منصب او ر اقتدار کے لئے تھی۔ انہوں نے مزیدکہاکہ محمود غزنوی کے ہندوستان میںآنے سے قبل ہی اسلام کی بنیادیں ہندوستان میںمضبوط ہوگئی تھیں۔ اس ملک کے پہلے مسجد کیرالا میںجہاں پر اسوقت کوئی بھی مسلم حکمران نہیںتھا مگر عرب کی سرزمین سے تاجرین کی ہندوستان آمد کے پیش نظر کیرالا میںپہلی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔انہوں نے کہاکہ بابر کو ہندوستان آمد کی دعوت کسی اور نے نہیںبلکہ رانا سانگا نے دی تھی ۔ جبکہ راناسنگا ایک ہندو تھے۔آج ہندوتوا طاقتیں کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر ہندوستان میںپھیلا جبکہ ایسا ہر گزنہیںہے ۔ سوامی وویکا نندا نے کہاتھا کہ ’’ہندوستان میںمسلمانوں کی آمد سے دلت سماج کے لئے مساوات کاسرزمین ہندوستان پر ایک انقلاب برپا ہوا ہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ جہاں مہارانا پرتاب کے دربار میںمسلمان مشیر اور بڑے سینا پتی میں حکیم خان اور رام سنگھ تھے وہیں اورنگ زیب کے دربار میں راجہ جئے سنگھ ‘ جسونت سنگھ اور راجہ راگھو ناتھ بہادر کی موجودگی یہ واضح کردیتی ہے کہ اس وقت کے حکمرانی کے درمیان میںلڑائی مذہب کی بنیاد پر نہیںبلکہ اقتدار کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی ۔اسکی ایک اور مثال ہلدی گھاٹی کے میدا ن میںپیش ائی جنگ سے بھی ہمیںملتی ہے جس میں مسلم حکمران کی نمائندگی کوئی اور نہیںبلکہ میدان جنگ میںمان سنگھ کررہے تھے ۔انہوںنے کہاکہ جہا ں تک پروپگنڈہ فلم ’’ چھاوا‘‘ کی بات ہے تو آج لوگ اس فلم کا نام لینے کو تک تیار نہیں ہیں ۔کیونکہ اس فلم میںحقائق کی پردہ پوشی کی گئی ہے اور جب عوام کو معلوم ہوا وہ حیران رہ گئے ۔ انہوں نے کہاکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کے پاس دوسالوں تک فوج کی تربیت پر مامور تھے ۔انہوںنے کہاکہ اساتذہ ‘ طلبہ ‘ دانشواروں‘ جہدکاروں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام سطحوں پر ان حقائق سے نوجوان نسل کو واقف کروائیں اور بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر کے ہاتھوں منوسمرتی کو نذر آتش کرنے اورآرایس ایس کے2000میں سربراہ سدرشن کی جانب سے ملک کے ائین کو غیر ملکی نظریات کا حامل قراردیتے ہوئے تبدیل کرنے کی بات سے نوجوان نسل کو واقف کروانے اشد ضرورت ہے۔ اکانوری مرلی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ نیا نہیںہے۔ پہلے بھی اس طرح کے کام انجام دئے جاچکے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ نصاب میں تبدیلی چھوت اچھوت کا احیاء کی کوشش دیکھائی دے رہا ہے ۔ ڈاکٹر کنچن نے علامہ اقبال کے شعر سے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ ’’کچھ بعد ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہمارے ‘ صدیوں رہا ہے دشمن دور جہاں ہمارا ‘‘ اور’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ‘‘اور کہاکہ ’’ اس شعر کا مطلب آج75سالوں کے بعد سمجھ میںآرہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ آج کے مورخین بالخصوص بھگوا دھاری ذہنیت کے خودساختہ مورخین یہ کہہ کر نصاب تبدیل کررہے ہیں کہ کانگریس کے دور میںتاریخ کو مسخ کرکے پیش کیاگیاتھا اور اب ہم اس کا احیاء عمل میںلارہے ہیں اورحقائق پر مبنی نصاب تیارکررہے ہیں۔ ڈاکٹر کنچن نے کہاکہ کیا ’’ستی‘‘( ہندوشوہر کے مرنے پر اس کی بیوی کو شوہر کی چیتا پر زندہ جلادینے کا طریقہ)کو تعریف او رتوصیف کرنا کیا حقیقی تاریخ پیش کرنے کے مترادف ہے۔ انہو ںنے کہاکہ کانگریس کے دور میں جن مورخین نے تاریخ پر کام کیاہے ان میں ارمیلا تھاپر اور دیگر کا نام شامل ہے مگر موجودہ نصاب کی تیاری کرنے والے مورخین کا پس منظر تاریخ سے کہیں بھی نہیںہے ۔ انہوں نے کہاکہ کسی کا تعلق ڈیفنس سے ہے تو ماہر معاشیات ہے مگر سب میںیکسانیت آر ایس ایس سے وابستگی ہے۔انہوں نے کہاکہ سوشیل میڈیا کا دور ہے ۔ ووٹ چوری کے ساتھ ساتھ گیان چوری کرنے والوں کے خلاف ہم مصنوعی ذہانت اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نوجوان نسلوں کی ذہن سازی کرسکتے ہیں اور تاریخ کومسخ کرنے کی کوششوں کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔ پدماجا شاہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ یونیورسٹی سطح پر تاریخ کو مسخ کرنے اور حقائق کی پردہ پوشی کرنے والوں کے خلاف تحریک شروع کرنے پر انفرادی طور سے اسٹوڈنٹس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ ماریہ تبسم عارف الدین اسٹیٹ ڈپٹی ہیڈ تلنگانہ پروفیشنل کانگریس اکیڈیمیا ورٹیکل نے این سی ای آر ٹی نصاب میں جو حالیہ عرصہ میںتبدیلیاں لاتے ہوئے نونہالوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کی کوششوں کی تفصیلات پیش کیں۔لطیف عاطر نے آخر میں شکریہ ادا کیا اور قومی ترانے کے بعد پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔