نظامس ٹرسٹ کی اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے اقدامات کی ہدایت

,

   

صدر نشین وقف بورڈ محمد سلیم نے ٹرسٹ کی مختلف جائیدادوں کا معائنہ کیا ۔ آصف سابع کی مزار پر حاضری

حیدرآباد۔24جنوری(سیاست نیوز) صدرنشین وقف بورڈ الحاج محمد سلیم نے نظامس ٹرسٹ کے تحت موقوفہ اراضیات کا معائنہ کرکے حقائق سے آگاہی حاصل کی اور ان کے تحفظ کی ہدایت دی ۔انہو ںنے امور مذہبی نظام ٹرسٹ کے تحت عاشور خانہ قلعہ محمد نگر ‘ قلعہ گولکنڈہ کے اندرونی حصہ کو ہوٹل کو کرایہ پر دینے کی مخالفت کی اورمعاہدہ کی منسوخی کی ہدایت دی ۔ انہوں نے کہاکہ جن جائیدادوں کا دورہ کیا گیا ان کے متعلق 28 جنوری کو بورڈ میں ٹرسٹ کے ذمہ داروں کا اجلاس طلب کرکے کاروائی کا آغاز کیا جائیگا۔ دورہ میں انکشاف ہوا کہ عاشور خانہ کو ٹرسٹ سے ہوٹل کیلئے کرایہ پر دیا گیا اور کرایہ دار آہک پاشی کر رہے تھے جسے صدرنشین نے روک دیا اور کہا کہ عاشور خانہ کی جگہ ہوٹل چلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔انہوں نے قلعہ کے قریب بس اسٹاپ و پارکنگ کی کھلی اراضی کا معائنہ کیا جو نظامس ٹرسٹ امور مذہبی کا حصہ ہے۔ انہوں نے حکام کو ہدایت دی کہ وہ کھلی اراضی کی تفصیلات انہیں پیش کریں۔ قلعہ کے روبرو قطب شاہی عاشور خانہ کو دو حصو ں میں تقسیم کئے جانے اور سامنے کھلی اراضی پر ناجائز قبضہ جات پر بھی انہوں نے برہمی ظاہر کی ۔ الحاج محمد سلیم نے مسجد جودی کنگ کوٹھی میں امور مذہبی کے دفتر کا معائنہ کیا اور آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کی مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی ۔ بعد ازاں امور مذہبی اور وقف بورڈ حکام کے ساتھ نظام ٹرسٹ کی اوقافی جائیدادوں و مساجد کے دورہ کا آغاز کیا ۔ مسجد عثمان گنج اور جامع مسجد افضل گنج کے تحت ملگیات کے کرایہ کے متعلق ٹرسٹ کی شکایت کا صدرنشین نے جائزہ لینے کا تیقن دیا اور کہا کہ معمولی کرایوں میں برسوں سے مقیم تاجرین سے بورڈ مذاکرات کا آغاز کریگا ۔ انہو ں نے نظامس ٹرسٹ امور مذہبی کے عہدیداروں کو عاشور خانہ قلعہ محمد نگر کے تمام دستاویزات اور کرایہ پر دینے کے معاہدہ کو بورڈ میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کی ۔ انہوںنے گولکنڈہ قلعہ کے روبرو میلاد میدان ‘پارکنگ کیلئے کھلی اراضی کی تفصیلات فوری پیش کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس جگہ پارکنگ اور فیس کی وصولی کے علاوہ اگر سرکاری بسیں بھی ٹھہرتی ہیں تو وہ غیر مجاز ہے اور ان سے وقف بورڈ کرایہ وصول کرنے اقدامات کریگا ۔ دورہ میں جناب منور ‘ جناب فلاح الدین انصاری کے علاوہ دیگر موجود تھے ۔