نوکریاں، خواتین کی سلامتی ، آزادانہ اظہار خیال نئے ووٹروں کی ترجیحات

   

نئی دہلی 15 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) شہری ہندوستان میں نوجوان اور بے چین، مضطرب اور پرجوش نئے ووٹرس اِس الیکشن میں واضح ویژن کے ساتھ حصہ لینے جارہے ہیں جو ملک کا مستقبل طے کرنے میں معاون ہوگا اور اُن کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی قائدین سے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی توقع رکھتے ہیں جیسے نوکریاں، خواتین کی سلامتی اور کسانوں کی پریشانی۔ اِن نوجوانوں کے زندگی کے مقاصد اور اُن کے کیرئیر کی ترجیحات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن وہ بہتر کل کے معاملے میں مشترک سوچ رکھتے ہیں اور اُن میں سے کئی کہتے ہیں کہ ملک کے وسائل اور ملک کی توانائیوں کو یادگاروں اور مجسموں جیسی چیزوں پر صرف نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہریانہ سے کرناٹک تک متعدد نوجوانوں نے اندیشے ظاہر کئے کہ عوام میں یہ سوشل میڈیا پر اُن کے آزادانہ اظہار خیال پر روک لگ رہی ہے اور وہ مستقبل کے قانون سازوں سے اِس رجحان میں تبدیلی کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 1.5 کروڑ نوجوان ووٹرس 18-19 سال کی عمر کے گروپ میں ہیں جو اِس مرتبہ 11 اپریل سے 19 مئی تک منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کریں گے۔ دہلی یونیورسٹی کی میرانڈہ ہاؤز میں انگلش آنرس کی اسٹوڈنٹ 20 سالہ کنیکا نے کہاکہ نوجوان کی حیثیت سے ہم تمام نوکریوں کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ سیاسی قائدین اور قانون ساز جنھیں ہم منتخب کرتے ہیں اُنھیں روزگار کی صورتحال کو بہتر بنانے پر کام کرنا چاہئے۔ اُنھوں نے کہاکہ جابس کہیں زیادہ اُنھیں آزادی حق اظہار خیال کی فکر ہے کیوں کہ حد سے زیادہ قوم پرستی اور جنونی رجحان ملک کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔

ہریانہ سے تعلق رکھنے والی کنیکا ایسی دسیوں ہزار نوجوان لڑکیوں میں سے ہے جو پڑھائی کے لئے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں۔ متوسط طبقہ کی یہ لڑکیاں یونیورسٹی کیمپس میں رہتے ہوئے پڑھائی مکمل کرتی ہیں اور اُس کے بعد وہ باوقار نوکری کے ساتھ عزت دار زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ خواتین کو اپنی حفاظت اور سلامتی کا بھی یقین رہنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں اِس موضوع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پٹنہ کے ایک نوجوان نے جو بنگلورو میں آر وی کالج آف انجینئرنگ میں کمپیوٹر سائنس کا طالب علم ہے، الیکشن کے تعلق سے کچھ اُلجھن میں معلوم ہوتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی بھی مخصوص پارٹی سے تحریک نہیں مل رہی ہے۔ تمام پارٹیوں کے اپنے مسائل ہیں۔ کئی دیگر اسٹوڈنٹس نے بھی اُس کے خیال سے اتفاق کیا اور یہ بھی کہاکہ یادگاری مجسموں پر بے پناہ اخراجات کئے جارہے ہیں۔ کئی طلبہ نے جموں و کشمیر اور لداخ کے سماجی و معاشی حالات کا حوالہ بھی دیا جو گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ابتر ہوتے جارہے ہیں۔اسٹوڈنٹس نے کہاکہ میڈیا میں سچائی کی نمائندگی بھی فکرمندی کا موضوع بن گیا ہے۔