وائس چانسلر بنیں گے وائسرائے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

تمام حکومتوں کی عملی طور پر یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حامل رہیں اور ایسے قانون بنائیں یا قانون سازی کریں جو خود انہیں زیادہ کنٹرول دے، زیادہ سے زیادہ اتھارٹی دے، باالفاظ دیگر وہ جو چاہیں کریں اور ان کی من مانی میں کسی کو مداخلت کرنے یا اسے روکنے کی ہمت و جرأت نہ ہو۔ یہ خواہش اس لئے پیدا ہوتی ہے کیونکہ حکمرانوں کا یہ ایقان ہوتا ہے کہ صرف وہی جانتے ہیں کہ ملک اور عوام کیلئے کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ بعض افراد میں ایسا ہی احساس پایا جاتا ہے اور اس احساس کو احساسِ نجات ( مسیحا ) کہا جاتا ہے۔ آپ نے اور ہم سب نے اکثر یہی دیکھا ہے کہ حکمرانوں کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ خود کو اپنے ملک اور عوام کا نجات دہندہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو کسی فرد؍ خاتون کے اس ایقان کا باعث بنتی ہے کہ صرف وہی تمام مسائل کو حل کرسکتا ہے اور لوگوں کو بچاسکتا ہے۔ اپنے انتہائی عروج پر پہنچنے پر یہ کیفیت ایک ایسے واہمہ کا باعث بنتی ہے جس پر اس ( مرد؍ عورت ) کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کی پیدائش حیاتیاتی طور پر نہیں ہوئی بلکہ خدا نے اُسے بھیجا ہے۔
7 جنوری 2025 کو اخبارات کے اندرونی صفحات میں راقم الحروف اُلجھ کر رہ گیا خاص طور پر ایک خبر نے نہ صرف میری تمام تر توجہ حاصل کرلی بلکہ مجھے حیران بھی کردیا۔ ایک خبر کی سرخی کچھ اس طرح تھی ’’ یو جی سی نے وائس چانسلروں کے تقررات کیلئے رہنمایانہ خطوط کا از سر نو جائزہ لیا ‘‘۔ موضوع دراصل یونیورسٹیز کے وائس چانسلروں کے انتخابی عمل سے متعلق تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) نے اس ضمن میں قواعد و ضوابط کا مسودہ جاری کیا اور تجاویز و مشورے طلب کئے۔
اگر ہم دیکھیں تو فی الوقت جو قوانین موجود ہیں ان میں سے اکثرقوانین حکومت اور اس کے سربراہ کو ایک یا ایک سے زائد یونیورسٹیز قائم کرنے کا مجاز گردانتے ہیں اور ریاست کے گورنر کو چانسلر بنایا جاتا ہے۔ بعض قوانین جس کے تحت مرکزی جامعات کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے صدر جمہوریہ ان جامعات کے وزیٹر ہوتے ہیں۔ جہاں تک گورنر کا سوال ہے وہ ہمیشہ طویل ریٹائرڈ سیاسی لیڈر اور ایک شہری ہوتا ہے۔ گورنر دستوری طور پر کام کرتے ہیں۔ موجودہ ضوابط ایک سرچ کم سلیکشن کمیٹی فراہم کرتے ہیں جس میں گورنر، ریاستی حکومت، یونیورسٹی کی سنیٹ اور یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کے ایک‘ ایک امیدوار کو نامزد کیا جائے گا جہاں تک Search-Cum-Selection کمیٹی کا سوال ہے یہ ایک وسیع البنیاد اور جمہوری کمیٹی ہوا کرتی ہے اگرچہ حتمی انتخاب چانسلر؍ گورنر کے ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ ماضی میں عام طور پر ریاستی حکومت کی مدد اور مشوروں پر عمل کرتے رہے۔ بدقسمتی سے یہ رواج پچھلی دہائی میں ایک طرح سے دفن ہوگیا اور گورنروں نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق وائس چانسلروں کے تقررات کئے۔
اب وقت بدل گیا ہے موجودہ حالات انتہائی ابتر ہیں‘ موجودہ نظام کے تحت گورنرس ایسے سیاسی تقرر یا عہدہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریہ سے وفاداری یا قابلِ بھروسہ و قابلِ اعتماد ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو بطور انعام دیا جاتا ہے۔ آپ ملک کی تمام ریاستوں کیلئے مقرر کردہ گورنرس کا جائزہ لے سکتے ہیں تاہم اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں میں گورنر کو مرکزی حکومت کی جانب سے اس کے وائسرائے کے طور پر کام کرنے اور ریاستی حکومت کو ایک طرح سے ’بیڑیاں‘ ڈالنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ریاستوں میں ایک اقتدار کے دو مراکز پائے جاتے ہیں اور وہ ہیں ایک جمہوری طور پر منتخبہ حکومت اور دوسرا غیر منتخبہ گورنر۔ اس طرح دستور میں Aid and Adwice کی جو شق موجود ہے اسے ہوا میں پھینک دیا گیا۔
آج ہندوستان بھر میں یہ بھی مشاہدہ میں آتا ہے کہ کئی ریاستی اسمبلیوں میں گورنرس ریاستی حکومتوں کی جانب سے روایت کے مطابق تیار کردہ سارا خطبہ یا خطبہ کے کچھ حصے پڑھنے سے انکار کررہے ہیں۔ یہ بھی مشاہدہ میں آرہا ہے کہ گورنر ریاستی حکومت کو برسرعام تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں خاص طور پر چیف منسٹر پر شدید نکتہ چینی کررہے ہیں۔ آج ہم یہ بھی مشاہدہ کررہے ہیں کہ گورنر کسی مسئلہ یا معاملہ پر متعلقہ ریاست کے چیف منسٹر کو نظرانداز کرتے ہوئے ریاستی چیف سکریٹری یا پولیس سربراہ کو طلب کررہا ہے اور انہیں ہدایات و احکامات جاری کررہا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ گورنر ضلعی انتظامیہ کا جائزہ لینے اور ضلعی عہدہ داروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیلئے ریاست کا دورہ کررہے ہیں۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اقتدار کے دو مراکز کا جو رجحان ہے وہ خود کو مضبوط و مستحکم کررہا ہے۔ خاص طور پر اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں میں یہ اپنے پوری مضبوطی کے ساتھ قدم جماچکا ہے۔ دستور کی دفعات کے متضاد ( بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی صورت میں ) ریاستی حکومت مکمل طور پر مرکزی حکومت کے ماتحت اور اس کے تابع ہوکر رہ گئی ہے اور ان ریاستی حکومتوں میں عام طور پر ایک وزیر یا سینئر عہدہ دار ہوتا ہے جس کی بات پر وزیر اعظم بھروسہ کرتے ہیں، وہ جو کچھ کہتا ہے وہ سنتے ہیں ، وہ وزیر یا سینئرعہدہ دار ہی وزیر اعظم کے فیصلوں سے چیف منسٹر کو واقف کرواتا ہے )۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ قانون یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی دفعہ 22 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایک ’ ڈگری‘ کا مطلب ایسی کسی بھی قسم کی ڈگری ہے جسے یو جی سی نے مخصوص کیا اور یہ ڈگری صرف وہی یونیورسٹی منظور کرسکتی ہے جس کا کسی قانون کے تحت قیام عمل میں آیا ہو۔ نئے مسودہ کے ضابطوں میں وائس چانسلر کے انتخاب اور تقرری کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی کہ یہ تین رکنی کمیٹی کے ذریعہ ہوگا جس میں ہر ایک چانسلر یو جی سی اور اعلیٰ ادارہ ( سنڈیکیٹ ؍ سنیٹ ؍ بورڈ آف مینجمنٹ میں سے ایک نامزد شخص پر مشتمل ہوگا ) یونیورسٹی کی کمیٹی 3-5 ناموں کا ایک پیانل تیار کرے گی اور چانسلر ان میں سے ایک کا تقرر کرے گا، اگر کسی یونیورسٹی نے ضابطوں کی خلاف ورزی کی تو اسے ڈگری پروگرام پیش کرنے یا UGC اسکیمات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا۔ اس کو نوٹ کریں کہ وائس چانسلر کے انتخاب اور تقرری میں ریاستی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ وائس چانسلر یو جی سی کا وائسرائے بن جائے گا جس کے چیر پرسن اور ارکان کا تقرر کیا جاتا ہے اور مرکزی حکومت کی طرف سے ہٹایا جاسکتا ہے۔
یونیورسٹیوں کو قومیانہ : وہ وائسرائے جو آر ایس ایس؍ بی جے پی کی نظریاتی کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں ایک یونیورسٹی کے گورنر؍ چانسلر اور وائس چانسلر کے انتظام کیلئے جگہ پر ہوں گے۔ مسودہ ضابطہ اگر نوٹیفائیڈ کیا جاتا ہے تو ریاستی حکومت کے حقوق کو غصب کرے گا۔ جس نے ریاست کے شہریوں کے فائدہ کیلئے یونیورسٹی قائم کی تھی اور یونیورسٹی کو ریاست نے اپنے وسائل سے فنڈز فراہم کئے تھے۔ ضوابط کا مسودہ یونیورسٹیوں کو قومیائی ہوئی یونیورسٹیز بنادیں اور مسیحا ( نجات دہندہ جو حکمراں خود کو سمجھتا ہے) ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے گا۔ یہ بی جے پی کی ون نیشن ون گورنمنٹ پالیسی کے مطابق مرکزیت کی ایک اور مثال ہے۔ یہ وفاقیت اور ریاستوں کے حقوق پر ایک کھلا حملہ ہے۔