ٹی آر ایس کی جانب سے سماجی فاصلہ قانون کی دھجیاں اڑائی گئی
ورنگل۔ 20 مئی (سیاست نیوز) ورنگل ایسٹ کے حکمران جماعت کے رکن اسمبلی این نریندر نے حکومت کی طرف سے دی گئی تمام ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک میٹنگ منعقد کی جس میں حکمراں ٹی آر ایس جماعت کی جانب سے تقریباً 1,000 سے زیادہ لوگوں کو فری راشن اور دیگر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ دینے کیلئے جمع کیا گیا تھا لیکن ان غریب خاندانوں میں راشن کٹس تقسیم کرنے کیلئے ان کے گھروں تک لے جاکر پہنچایا جاسکتا تھا جبکہ ورنگل میں دیگر سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی کرانہ اور روزمرہ کی ضروری اشیاء مفت تقسیم کی جارہی ہیں لیکن عام لوگوں کو جمع کئے بغیر ان کے گھروں تک پہنچائے جارہے ہیں لیکن ٹی آر ایس پارٹی کی طرف سے اس طرح میٹنگ یا جلسہ کی ذریعہ دینا غریبوں کے ساتھ نہ صرف مذاق بلکہ لاک ڈاؤن کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ٹی آر ایس پارٹی کی میٹنگ میں کوئی بھی سماجی دُور ی نہیں تھی اور ایک اسٹیج بھی بنایا گیا تھا جہاں پر ضرورت مند افراد کیلئے شامیانے ڈالے گئے تھے۔ اس اسٹیج سے مقامی ایم ایل اے این نریندر اور گورنمنٹ چیف وہپ داسیم ونئے بھاسکر اور گریٹر ورنگل میونسپل کارپوریشن میئر جی پرکاش راؤ اور دیگر ٹی آر ایس قائدین نے خطاب بھی کیا۔ ان کے خطاب کے دوران عام لوگوں قریب قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس میٹنگ کو ورنگل ایسٹ کے ایم ایل اے این نریندر نے منعقد کیا تھا جبکہ سارے ریاست میں لوگوں کا جمع ہونا، جلسہ، میٹنگ، مذہبی اجتماع اور دیگر تقریبات کا انعقاد سختی سے منع ہے۔ ایسے میں ورنگل میں اس طرح کا جلسہ عام لوگوں کی فہم سے بالاتر تھا اور عام لوگ پریشان تھے کہ اگر اتنے بڑے مجمع میں سے اگر کورونا وباء دوبارہ شروع ہوتی ہے تو پھر شہر ورنگل کا کیا حشر ہوگا۔ جبکہ ورنگل کچھ دن پہلے تک ریڈ زون میں تھا اور ایک ہفتہ قبل ہی نارمل زون میں تبدیل ہوا ہے۔ اس ریاست میں کوئی بھی جلسہ ،اجتماع یا دیگر تقریبات کی کوئی اجازت نہیں ہے، پھر ایسے میں حکمران جماعت کے ایم ایل اے این نریندر کی جانب سے اس طرح کی میٹنگ منعقد کرنا ناقابل فہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ورنگل ایسٹ کے ایم ایل اے کو کسی قسم کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں قابل ذکر بات ہے کہ جس وقت دہلی مرکز سے تبلیغی جماعت کے افراد کی واپسی ہوئی تھی تو مسلمانوں کے خلاف کافی واویلا مچایا گیا تھا جبکہ یہاں اس میٹنگ پر خاموشی اختیار کی گئی اور ورنگل میں جس وقت مسلمان دکانداروں پر لاٹھیاں برسائی گئی تھیں تو کوئی بھی ایم ایل اے نے اس کی مذمت نہیں کی تھی اور اشیائے ضروریہ کی تقسیم میں ورنگل اور ہنمکنڈہ کے مسلمانوں کو بری طرح نظرانداز کردیا گیا اور ایک بھی ایم ایل اے نے مسلم محلہ جات کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے علاوہ مساجد میں نماز عیدالفطر کی ادائیگی کی حکومت کی جانب سے اجازت بھی نہیں دی گئی۔ کیا یہی ٹی آر ایس کی اقلیت دوستی ہے؟
