’وقف بہ تصرف ‘ سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے سپریم کورٹ کی ہدایت

,

   

وقف کونسل اور بورڈز میں غیرمسلم افراد کی شمولیت پر مرکز سے جواب طلب ۔5 مئی کو آئندہ سماعت
نئے وقف قانون پر عدالت عظمیٰ کی عارضی روک

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے وقف (مرممہ ) قانون کے خلاف دائر کیس میں مرکز کو ہدایت دی ہے کہ وہ اگلی سماعت تک ان تمام اوقافی جائیدادیں جن میں ’’ وقف بہ تصرف ‘‘ یعنی ’’استعمال کے ذریعے وقف‘‘ شامل ہیں اور جو نوٹیفکیشن یا رجسٹریشن کے ذریعے وقف قرار دی گئی ہیں نہ تو ان کی وقف حیثیت ختم کی جائے اور نہ ہی ان کا کردار تبدیل کیا جائے۔ مرکز نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کی کہ وقف کونسل یا وقف بورڈز میں کسی قسم کی نئی تقرری عمل میں نہیں آئے گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کو دوپہر دو بجے سے کیس کی سماعت دوبارہ شروع کی۔عدالت نے آئندہ سماعت 5 مئی کو مقرر کی ہے، جس وقت تک مرکز، ریاستی حکومتوں اور اس قانون کی مخالفت کرنے والے درخواست گزاروں کے جوابات داخل کئے جانے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ پانچ درخواستوں کو مرکزی حیثیت دی جائے گی جن کا انتخاب درخواست گزار خود کریں گے۔سپریم کورٹ نے ان مقدمات کو الگ کر دیا ہے جو ہندو فریقین کی طرف سے 1995 اور 2013 کے سابقہ وقف قوانین کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کیے گئے تھے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ 2025 کے ترمیمی وقف قانون کو چیلنج کرنے والی تمام پانچ درخواستوں کو ایک ہی عنوان کے تحت سنا جائے گا۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے اس قانون پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ بنچ نے تین اہم نکات پر سوال اٹھایا: وہ جائیدادیں جو ’’استعمال کے ذریعے وقف‘‘ کے تحت پہلے ہی عدالت کے احکامات سے وقف قرار دی جا چکی ہیں، ان کا موجودہ موقف کیا ہوگا؟وقف کونسل اور وقف بورڈز میں غیر مسلم افراد کی اکثریتی موجودگی پر عدالت نے سوال اٹھایا۔اس دوران سپریم کورٹ نے سالیسٹر جنرل کا بیان ریکارڈ پر لیا اور حکومت کو جواب داخل کرنے کے لیے 7 دن کی مہلت دے دی۔ حکومت کی جانب سے جواب داخل کرنے کے بعد درخواست گزاروں کو 5 دن کا وقت دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کے بعد کیس کو عبوری حکم کے لیے درج کیا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ اتنی زیادہ درخواستوں کی سماعت کرنا ناممکن ہے، اس لیے صرف 5 درخواستوں پر ہی سماعت کی جائے گی، حالانکہ وقف ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی جملہ 10 درخواستیںسپریم کورٹ میں درج ہیں۔یہ درخواستیں مولانا ارشد مدنی، بیرسٹر اسدالدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد،عام آدمی پارٹی ایم ایل اے امانت اللہ خان، شہری حقوق کے تحفظ کے لیے اسوسی ایشن، سمستھا کیرالہ جمعیۃالعلماء، انجم قادری، طیب خان سلمانی، محمد شفیع، محمد فضل الرحیم اور آر جے ڈی لیڈر منوج کمار جھا نے دائر کی ہیں۔ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا اور سماج وادی پارٹی کے لیڈر ضیاء الرحمن برق کی طرف سے دائر تازہ درخواستوں کو بھی درج کیا گیا ہے۔عدالت میں وقف ایکٹ کی سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے وقف ایکٹ کی دفعات پر پابندی کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ دفعات پر روک لگانا ایک سخت قدم ہو گا۔وقف ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے زبردست احتجاج کیا جا رہا ہے۔مغربی بنگال کے مرشد آباد میں نئے وقف ایکٹ کے خلاف احتجاج میں پیش آئے تشدد کی وجہ سے سیاسی ماحول بھی کافی گرم ہے۔