روش کمار
چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار فی الوقت راہول گاندھی پر کافی برہم ہیں۔ انہوں نے قائد اپوزیشن کی جانب سے ووٹ چوری اور الیکشن کمیشن ۔ بی جے پی سازباز کے الزامات پر پریس کانفرنس طلب کی اور برہمی کے انداز میں کچھ یوں کہا ’’حلف نامہ دینا ہوگا یا ملک سے معذرت خواہی کرنی ہوگی، تیسرا آپشن نہیں ہے۔ یہ بھی کہتا ہوں، اگر 7 دن میں حلف نامہ نہیں ملا تو اس کا مطلب یہ سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔ جواب میں راہول گاندھی نے جو بہار میں ووٹ ادھیکار یاترا پر ہیں، کہتے ہیں ’’اب آپ اچھی طرح سنئے اور یہ جو الیکشن کمشنران بیٹھے ہوئے ہیں، ان تینوں سے میں کہہ رہا ہوں، پورا ملک جس سے آپ نے ووٹ چوری کی ہے، عوام آپ تینوں کو دیکھیں گے، آپ کے خلاف کارروائی کریں گے، الیکشن کمیشن سے میں کہنا چاہتا ہوں، پورا ملک آپ سے حلف نام نامہ مانگنے کا کام کرے گا، تھوڑا سا وقت دے دو، ہم ریاست میں ہر اسمبلی حلقہ میں ہر لوک سبھا حلقہ میں آپ کی چوری پکڑ کر ملک کو دکھانے جارہے ہیں‘‘۔ بہرحال یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن اب الیکشن کمیشن کو لے کر کھلی لڑائی کے موڈ میں آگیا ہے۔ راہول گاندھی نے تینوں الیکشن کمشنران کو للکارا، کہا ہے کہ ہم تینوں کو دیکھ لیں گے۔ یہ تینوں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار، ویویک جوشی اور سکھبیر سنگھ سندھو ہیں۔ ہمارا سوال ان تینوں سے ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دونوں الیکشن کمشنران سے۔ کیا ان میں سے کسی کو احساس ہے کہ اگر عوام کے درمیان الیکشن کمیشن کا بھروسہ نہیں رہ جائے گا تو ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ الیکشن کمیشن کو آزاد بنایا گیا تاکہ وہ سب کا اعتماد حاصل کرے۔ بھروسہ جیتنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی کے آگے نہ جھکے، کسی کی طرفداری نہ کرے، کیا آپ کو احساس ہے کہ راہول گاندھی یہ سب کچھ کہنے کیلئے کیوں مجبور ہورہے ہیں۔ راہول گاندھی اس بارے میں کہتے ہیں ’’تینوں الیکشن کمشنران سے میں کہہ رہا ہوں کہ آپ ایک بات سمجھ لو، مودی جی کی حکومت ہے وہ سب ٹھیک ہے، تیجسوی جی نے کہا آپ نے بی جے پی کی رکنیت لے رکھی ہے، آپ بی جے پی کیلئے کام کررہے ہو، مگر ایک بات سمجھ لو ایک دن ایسا آئے گا جب یہاں پر بہار میں دہلی میں انڈیا اتحاد کی حکومت ہوگی، تب ہم آپ تینوں کو دیکھیں گے۔ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔ پورا ملک جس سے آپ نے چوری کی ہے، وہ آپ کو دیکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کو بڑے آرام سے بیٹھ کر 17 اگست پریس کانفرنس کا شرمناک ویڈیو دیکھنا چاہئے۔ سوچنا چاہئے کہ کیا انہوں نے راہول گاندھی کے سوالوں کا ایک بھی جواب ٹھیک ٹھیک دیا، سن کر ہندوستان کے عوام مطمئن ہوجاتے کہ کچھ ہوجائے۔ الیکشن کمیشن گڑبڑی نہیں کرسکتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کتنی بے تکی بات کی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کو لے کر، کہا کیا اپنی ماؤں، بہوؤں اور بیٹیوں کے بشمول کسی بھی ووٹر کی سی سی ٹی وی ویڈیو کا الیکشن کمیشن کو انکشاف کرنا چاہئے۔ آپ کو یاد ہوگا مودی حکومت الیکٹورل بانڈ کا قانون لے کر آئی، جسے سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا اور حق معلومات کے خلاف بھی کہا۔ اس معاملے کی سماعت کے دوران مودی حکومت نے عدالت میں کہا کہ چندہ دینے والے کارپوریٹ کا نام نہیں بتائیں گے، پرائیویسی کا معاملہ ہے، کہا کہ عوام کو سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے بارے میں جاننے کا عام حق نہیں، اب آپ بتایئے کہ الیکشن کمیشن اور مودی حکومت کی زبان اس جگہ پر ایک جیسی نہیں لگتی؟
بہار میں راہول گاندھی کی ووٹ ادھیکار یاترا سے سیاست کی زمین ہل چکی ہے اور اقتدار کی کرسیاں ڈگمانے لگی ہیں۔ مودی حکومت کیلئے سب سے بری خبر آئی ہے کہ بی جے پی کے دس بڑے لیڈروں نے پارٹی چھوڑ دی ہے، یہ وہی چہرے ہیں جن کی گنتی بی جے پی کی ریڑھ کی ہڈی مانی جاتی تھی اور اب سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا ملک کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے؟ کیا راہول گاندھی سچ میں اگلے وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ میڈیا چیانلوں پر شور ہے۔ سوشیل میڈیا پر ہنگامہ ہے اور عوام اب سوچ رہے ہیں کہ اتنے برسوں سے جو حکومت مضبوطی کا دعویٰ کرتی تھی، اس کا خاتمہ اتنی جلدی کیسے سامنے آگیا۔ سب سے پہلے یہ واضح کردوں کہ ابھی تک بی جے پی چھوڑنے کا اعلان کسی نے نہیں کیا ہے، لیکن سیاسی گلیاروں میں جو خبریں پھیل رہی ہیں، ان میں سب سے بڑا نام سامنے آتا ہے۔ وہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کا حالیہ دونوں دونوں کے بیانات سے یہ چرچہ ہونے لگا کہ وہ کبھی بھی بی جے پی سے دُور ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مودی حکومت کیلئے کسی طوفان سے کم نہیں ہوگا۔
آر ایس ایس این جی او کیا مذاق ہے
وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے جو خطاب، کیا، اس پر کئی گوشوں سے تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے 103 منٹ تک خطاب کیا اور یہ خطاب 103 منٹ سے بھی زیادہ طویل ہوسکتا تھا، لیکن ہمارے وزیراعظم کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے صرف 103 منٹ تک ہی خطاب کیا۔ امید ہے اگلی بار سارا دن خطاب کرتے رہیں گے۔ 11 سال میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کرسکے لیکن خطاب کو لے کر ان سے شکایت نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم مودی یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کے خطاب کا سلسلہ جاری رہے لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے خطاب کو سنجیدگی سے نہ لے یا بحث کسی اور سمت میں چلی جائے۔ 11 سال سے وزیراعظم کے عہدہ پر وہ فائز ہیں۔ پہلی بار انہوں نے آر ایس ایس کی اتنی تعریف کردی اور اسے دنیا کی سب سے بڑی غیرسرکاری تنظیم قرار دیا لیکن کس شعبہ کا این جی او ہے، وہ بتانا بھول گئے۔ مودی نے آر ایس ایس کو این جی او کیوں کہا؟ اس لئے کہ کانگریس اس این جی او کی سالانہ رپورٹ طلب کرنے لگ جائے، کتنی کمائی ہے؟ کتنا چندہ آتا ہے؟ اس کا یونیک نمبر کیا ہے؟ کس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن ہوا ہے؟ 15 اگست کو انہوں نے آر ایس ایس کو ٹارگٹ کیا ہے یا اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے کا موقع دیا ہے۔ کیا آپ کو یہ معلوم تھا کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں کوئی این جی او سرگرم تھا اور اس کا نام آر ایس ایس ہے۔ ہندو راشٹرا کا خواب دیکھنے والے اس کے بانیوں میں سے ایک ہیڈگوار اور گولوالکر این جی او کا کام کررہے تھے، سیاست نہیں۔ آر ایس ایس کو اگر اتنا بڑا سرٹیفکیٹ ملا ہے، وہ بھی وزیراعظم نریندر مودی سے تو اس کے سرسنچالک موہن بھاگوت کو اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے بیان دینا چاہئے تھا لیکن اس کی جگہ سنگھ نظریہ ساز کے نام پر ایک دو عہدیدار ٹی وی اسٹوڈیو میں عجیب و غریب دلائل دیتے رہے اور اپنے ہی جوابوں میں الجھتے نظر آئے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے 2014ء کے بعد سے این جی او سیکٹر پر کتنا حملہ ہوا؟ اس حکومت میں این جی او کی کتنی پہنچ ہے، آپ این جی او سے معلوم کرلیجئے۔ الگ الگ شعبوں میں کام کرنے والے این جی اوز کی فنڈنگ روکنے کیلئے کتنے طریقہ بنائے گئے اور ان میں سے کئی کو قوم دشمن بتایا گیا جس این جی او سیکٹر پر اتنا حملہ ہوا، اسی این جی او کے نام سے آر ایس ایس کی تعریف ہوئی۔ انہوں نے آزادی کی لڑائی میں اس کے کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ 100 سال کے کردار کا ذکر کیا گیا تو مطلب نکالا گیا کہ آزادی کی لڑائی بھی تو اسی 100 سال میں ہوئی ہے۔ وزیراعظم مودی نے صاف صاف جدوجہد آزادی میں آر ایس ایس کے کردار کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا انہیں اس کا ایک بھی حصہ نہیں ملا، کیا اس کا حصہ ہے بتادیتے، دوچار شمار کردیتے، 103 منٹ کا خطاب تھا، 2 منٹ اور طویل ہوجاتا۔ مودی نے اپنے خطاب میں یہ نہیں بتایا کہ جب گاندھی، نہرو، پٹیل جیل جارہے تھے، مجاہدین آزادی پھانسی کے پھندے پر چڑھ رہے تھے تب ڈاکٹر ہیڈگوار اور گولوالکر کونسی نئی توانائی بھر رہے تھے؟ بتاتے کہ بھگت سنگھ کی طرح آر ایس ایس کا کوئی کارکن پھانسی پر چڑھا، کالا پانی کی سزا کاٹنے گیا اور انگریزوں سے معافی نہیں مانگی۔ 1942ء کی ’’ہندوستان چھوڑدو تحریک‘‘ میں آر ایس ایس کے سوئم سیوک کیا کررہے تھے؟ جب انگریزوں نے گاؤں گاؤں سے کانگریس کے ایک ایک لیڈر اور کارکنوں کا پتہ لگاکر جیل میں ڈال دیا، یہاں تک کہ گھر گھر سے چرخے تلاش کرکے توڑ دیئے گئے تاکہ چرخہ کا نام و نشان تک نہ بچ سکا۔ اس وقت آر ایس ایس کے ساتھ کیا ہوا، کیا وزیراعظم نریندر مودی آر ایس ایس کے جس کردار کی تاریخ بتارہے تھے، اسی کردار کی وجہ سے یہ سب نتائج برآمد نہیں ہوئے؟ آر ایس ایس کو غیرسرکاری تنظیم کہہ دیا جبکہ آر ایس ایس خود کو ثقافتی تنظیم کہتی رہی ہے۔ کام سیاسی کرتی رہی لیکن اب وزیراعظم مودی نے اسے ایک طرح سے این جی او کہہ دیا ہے، اس کا کوئی رجسٹریشن ہے، چندہ کا کوئی حساب ہے، چندہ کیلئے FCRA لائسنس ہے یا نہیں؟ لوگ پوچھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم مودی چاہتے یہی تھے کہ آر ایس ایس پر حملہ شروع ہوجائے اور آر ایس ایس چپ رہ جائے۔