وہ درد اور پیار پیدا کرو۔ بقلم: ایس ایم سید محمد سلطان

   

چند مہینےقبل مجھے ایک کام کے سلسلے میں عدالت جانا پڑا ، وہاں میں نے ایک عجیب منظر دیکھا، ہوا یوں کہ جب میں نے عدالت کے کمپاؤنڈ میں قدم رکھا تو وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ دو بھائی اپنے والد کی وراثت کے سلسلے میں ایک دوسرے پر کیس درج کئے ہوئے ہیں اور معاملہ کورٹ کچہری تک آپہنچا ہے، وہ دونوں بھائی میرے شناسا تھے تو میں نے ان دونوں میں سے ایک کے پاس جاکر پوچھا کہ آپ لوگ وراثت کے تصفیہ کے لئے محکمہ شرعیہ کیوں نہیں گئے۔ کونسی ضرورت آپ کو یہاں کھینچ لائی؟ ان میں سے ایک نے کہاکہ: میں نے اس سلسلہ میں محکمہ کا رخ کیا لیکن میرا بھائی اس پر رضا مند نہیں ہے؛ اس لئے مجھے کورٹ میں آنا پڑا۔ اس سلسلے میں اس نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ میں نے اب تک وکیلوں کے پیچھے ایک لاکھ سے زائد خرچ کیا ہے، بارہا سمجھانے کے باوجود بھی میرا بھائی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔مجھے یہاں اس سلسلہ میں وجے واڑہ میں ایک مسلم گھرانہ کا واقعہ یاد پڑتا ہے۔ وہ واقعہ بھی آپ قارئین کے گوش گذار کرتا چلوں شاید اس واقعہ سے ہم کچھ سبق لیں۔ واقعہ یوں ہے کہ دو بھائیوں میں وراثت کی تقسیم کے سلسلہ میں بہت جھگڑے ہوئے، ان دونوں میں سے بڑے بھائی نے جائداد کی تقسیم کے لئے وجےواڑہ کے ایک معروف غیر مسلم وکیل کی مدد کی اور اتفاقاً دوسرا بھی اپنا مقدمہ لے کر اسی وکیل کے پاس گیا، وہ وکیل جس کے ہاتھ میں اس کے بھائی کا مقدمہ تھا اس نے اسے ٹالتے ہوئے مشغولیت کا بہانہ بنا کر اسے واپس بھیج دیا، البتہ اس نے اس سے کہا کہ میں آپ کی اس سلسلے میں ایک مدد ضرو کرسکتا ہوں کہ میرا ایک دوست جو کہ ایک نامور وکیل ہے میں اس کے لئے آپ کے پاس ایک سفارشی خط دونگا وہ لیکر آپ اس کے پاس جائیے! ییہ کہہ کر اس نے وہ خط لفافہ میں بند کرکے اس کے ہاتھ میں تھما دیا، جب وہ چھوٹا بھائی لفافہ لے کر باہر آیا تو راستہ میں اس نے سوچا کہ دیکھنا چاہیے کہ آخر وکیل نے کیا لکھا ہے ؟ یہ خیال اس کے دل میں آتے ہی اس نے لفافہ چاک کیا اور اس میں لکھی ہوئی تحریر پڑھنے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ وکیل صاحب نے لکھا ہے کہ : ’’ محترم وکیل دوست ! یہ دونوں بھائی بہت مالدار ہیں اور اس سلسلے میں اس کے بڑے بھائی نے وراثت کا ایک کیس میرے حوالے کیا ہے اب اس بھائی کا کیس بھی آپ لیجئے! ہم ان دونوں کو آپس میں لڑا کر خوب پیسہ اینٹیں گے۔”اس خط کو پڑھنے کے بعد چھوٹے بھائی کے حواس ٹھکانے آجاتے ہیں، اور وہ سیدھا اپنے بڑے بھائی کے پاس جاتا ہے اور یہ خط دکھا دیتا ہے۔ اور کہتا ہےکہ: بھائی کیوں ہم آپس میں لڑبھڑا کر اپنی جائداد کو تباہ کریں، میں آج سے میری جائداد بھی آپ کے نام کرتا ہوں، اس کے بعد دونوں بھائی آپس میں خوب مل کر روتے ہیں اور ایک دوسرے سے لپٹ کر معافی مانگ کر ہمیشہ خوشی سے رہنے لگتے ہیں۔ میرے عزیزو! آج ہمیں اور ہمارے معاشرے کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم بھی اپنے اندر وہ درد اور پیار محبت کے پیدا کرنے والے بنیں۔ بعض اوقات ہمارے شہر میں ایسے ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، کبھی سننے میں آتا ہے کہ وراثت کی تقسیم صحیح نہیں ہوئی ، کبھی یہ شکایت ملتی ہے کہ ایک بھائی کو کم آمدنی والی جائداد یا بے کار کی دوکان ملی ہے، اور دوسرے کو اچھی آمدنی والی جگہیں ملی ہیں کبھی اور کسی چیز کا رونا رویا جاتا ہے۔ غرض خال خال ہی لوگوں کو وراثت کی تقسیم پر اطمنان ہوتاہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وراثت کی تقسیم میں اب بھی کئی ایسے گھر ہیں جہاں برسوں گزر کئے اب تک آپسی جھگڑوں اور تنازعات کی بنیاد پر وراثت کی تقسیم نہیں ہوئی، جن کی وراثت تھی وہ تو چلے گئے، لیکن جن کو وراثت میں حق ملنا تھا وہ بھی اسی انتظار میں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں حتّی الامکان کشادہ دلی کا رویہ اپناتے ہوئے اس کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کی جائے۔