ویکسین مہم سست روی کا شکار حکومت دے رہی ہے کامیابی کے اشتہار

   

رویش کمار
محکمہ موسمیات کو اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی تواریخ میں مانسون نہیں آیا۔ ہم دہلی کی بات کررہے ہیں۔ دہلی کے عوام نے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا انتظار چھوڑ دیا ہے اور مانسون کا انتظار شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف واٹس یونیورسٹی کے اسکالرس یا دانشوروں کے درمیان یہ بحث چل پڑی ہے کہ دہلی میں بھی پٹرول 101 روپئے ہوگیا تو کیا ہوا، ترقی بھی تو ہورہی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاہ ڈول اور گنگا نگر جیسے علاقہ دہلی سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو مدھیہ پردیش کا ضلع شاہ ڈول کا شمار ملک کے انتہائی پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ 111.71 روپئے فی لیٹر پٹرول خرید رہے ہیں۔ گنگا نگر کے لوگ ایک لیٹر پٹرول کیلئے 112.49 روپئے ادا کررہے ہیں۔ یہ حقیقت جاننی بھی چاہئے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے عام لوگوں کے بوجھ میں کتنا اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کو تو یہ اشتہار چھپوانا چاہئے کہ ملک کیلئے 110 روپئے فی لیٹر پٹرول فروخت کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے، جیسے کہ کورونا وائرس ٹیکہ اندازی سے متعلق اشتہارات شائع کئے جارہے ہیں۔ اُتراکھنڈ حکومت نے ایک اخبار کے صفحہ اول پر بڑا دلچسپ اشتہار شائع کروایا جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں ٹیکہ اندازی مہم بڑی تیزی سے جاری ہے اور اُتراکھنڈ کورونا سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہ تو اشتہار کی بات رہی۔ ایک اور اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ پہاڑ کے مراکز میں تین دن سے کوئی ٹیکہ نہیں ۔ نینی تال میں بھی ٹیکے ختم ہوچکے ہیں۔ یہ اخبار مزید لکھتا ہے کہ ایک بھی ٹیکہ باقی نہیں۔ ہر طرف اظہار تشکر کے پوسٹرس ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اشتہار کا مطلب کیا ہے؟ اشتہار کی سچائی کچھ اور ہے اور اخبار میں شائع خبر کی سچائی کچھ اور ہے۔ اگر آپ کو آنے والے دنوں میں ٹیکہ نہ ملے تو ٹیکے کے بجائے آپ اشتہار لیجئے۔
’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورۂ احمدآباد کی خبر دی گئی ہے۔ اس نیوز کی سرخی امیت شاہ کے اُس بیان سے لگائی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کووڈ سے مقابلہ صرف اور صرف شہریوں کو ٹیکے دے کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکے تو بہت ہیں، لیکن شہری ٹیکے لینے سے گریز کررہے ہیں۔ اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ امیت شاہ نے پارٹی ورکرس کو ہدایت دی کہ وہ گاؤں گاؤں پہنچ کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص ٹیکے کے بغیر نہ رہے۔ گجرات میں ٹیکہ اندازی کیلئے چیف منسٹر وجئے روپانی کی قیادت میں ایک زبردست مہم چلائی جارہی ہے۔ گجرات کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک نیا زاویہ دیا گیا ہے۔ گجرات کی تعریف یوں کی گئی کہ ٹیکوں کے معاملے میں گجرات پہلے مقام پر ہے اور وہاں ایک ملین سے زائد ٹیکے دیئے جاتے ہیں۔ آپ کو بتانا ضروری ہوگا کہ گجرات کی آبادی 6 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ تاحال 2.7 کروڑ ڈوز دیئے گئے ہیں۔ کووین کی سائیٹ پر دکھایا گیا کہ صرف 63.70 ہزار لوگوں نے ٹیکے کے دونوں ڈوز لئے ہیں اور حکومت جان بوجھ کر ایک ڈوز لینے والوں کی تعداد دکھا رہی ہے، کیونکہ ساڑھے تین کروڑ کی تعداد بڑی لگتی ہے۔ 7 جولائی کو گجرات میں 6,452 ٹیکے دیئے گئے۔ 8 جولائی کو 7,081 ٹیکے اور 9 جولائی کو صرف 5,996 ٹیکے دیئے گئے۔ 21 جون کے بعد وی کے پال کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کی آزمائش کررہے ہیں کہ ہمارے پاس کتنی گنجائش ہے اور یومیہ کتنے لوگوں کو ٹیکے دیئے جاسکتے ہیں۔ تجربے ہوئے کئی دن گزر چکے لیکن گنجائش کے مطابق ٹیکے نہیں دیئے جارہے ہیں۔ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے ایک ٹوئٹ کیا ہے کہ 11 جون تا 20 جون ہر دن 34 لاکھ ڈوز دیئے گئے۔ 21 جون اور 30 جون کے درمیان ہر روز 56 لاکھ لوگوں نے ٹیکہ لیا۔ یکم جولائی اور 10 جولائی کے درمیان ہر روز 40 لاکھ ڈوز دیئے گئے۔ 31 ڈسمبر تک 18 سال سے زائد عمر کے ہر شہری کو ٹیکے دیئے جائیں تو پھر یومیہ 86.5 لاکھ ٹیکے دیئے جانے ہوں گے۔
ہندوستان میں ہنوز 58 اضلاع ایسے ہیں جہاں کورونا کی پھیلنے کی شرح 10 فیصد سے زائد ہے۔ ان اضلاع میں کیرلا اور منی پور 8، 8 اضلاع، اروناچل پردیش کے 5 اضلاع شامل ہیں۔ راجستھان کے 10 ضلعے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خطرہ نہیں ٹلا ہے۔ جب ایک شخص سے کئی لوگ متاثر ہوتے ہیں تو اس شرح کو R قدر کہا جاتا ہے چنانچہ ہندوستان میں Rقدر دوبارہ بڑھنی شروع ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے فیصلے میں یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ جہاں مذہبی تقاریب کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، وہاں حکومت مذہبی تقاریب منعقد کرنے کیلئے لڑ رہی ہے۔ بعض مقامات پر محدود پیمانے مذہبی تقاریب کے اہتمام کی اجازت دی جارہی ہے اور ان تقاریب میں سماجی فاصلوں اور دیگر رہنمایانہ خطوط کا کوئی خیال نہیں رکھا جارہا ہے اور مثال کے طور پر چیف منسٹر گجرات نے خود رتھ یاترا میں شرکت کی جہاں ایک ہجوم جمع ہوگیا، لوگ بناء ماسک کے دیکھے گئے۔ سماجی فاصلہ نظر نہیں آیا جبکہ گجرات کے وزیر داخلہ کا بیان شائع ہوا ہے، اس میں کہا گیا کہ رتھ کو کھینچنے والے صرف 20 خلاصیوں کیلئے ہی RTPCR ٹسٹ لازمی قرار دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہاں صرف 20 لوگ تھے۔ ایسا نہیں تھا بلکہ وہاں ایک جم غفیر جمع ہوگیا تھا۔ اکثر لوگوں کے چہروں پر ماسک نہیں تھا۔ یہ یاد دلانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ اسی احمدآباد میں اپریل اور مئی کے درمیان کیا ہوا۔ اڈیشہ کے پوری میں بھی یاترا نکالی گئی لیکن وہاں صرف پانڈا اور پولیس ہی موجود تھی۔ سپریم کورٹ نے عام عقیدت مندوں کی شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔ جو بھی موجود تھے، ان کے آر ٹی پی سی آر ٹسٹ لئے گئے تھے۔ اب چلتے ہیں کہ اُتراکھنڈ کی جانب۔ جہاں ہائیکورٹ نے چاردھام یاترا کو منسوخ کردیا تھا، لیکن ریاستی حکومت ، ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی۔ حکومت نے ایک ساتھ ہی چاردھام یاترا اور کنور یاترا پر پابندی عائد کرنے سے گریز کرنا شروع کردیا ہے، حالانکہ اپریل میں منعقد ہوئی ہری دوار کمبھ کے بارے میں کئی سنگین سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
کنور یاترا کے بارے میں ریاست کے نئے چیف منسٹر پشکال سنگھ دھامی کا ایک بیان ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ یاترا عقیدے کا معاملہ ہے۔ خدا نہیں چاہتا کہ کوئی مرے، اگرچہ بی جے پی نے ریاست میں تاحال تین چیف منسٹر بدلے ہیں، اس کا رویہ نہیں بدلا۔ سابق چیف منسٹر نے کنور یاترا پر دباؤ کے مارے پابندی عائد کی تھی، لیکن نئے چیف منسٹر یاترا نکالنے پر بضد ہیں۔ 11 اپریل کو ’’دینک جاگرن‘‘ میں اشتہار شائع ہوا تھا۔ اس اشتہار میں سابق چیف منسٹر تیرتھ سنگھ راوت اور وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر بھی تھیں اور عقیدت مندوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ گنگا میں ڈبکی لگانے کیلئے میلے میں آئیں۔ ویسے بھی اکثر شاہی اشنان کی تواریخ شائع ہوتی رہی جس میں یہی کہا کہ خوبصورت ،صاف ستھرا، محفوظ مہا کمبھ میلہ ہری دوار ۔