ٹرمپ کے دعوے اورمودی جی کی مسلسل خاموشی

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں آئے وہ مواقع یاد ہوں گے جب آپ اس امر کے خواہاں رہے ہوں گے کہ کوئی شخص جو آپ کے ساتھ رہنا یا وقت گذارنا چاہتا تھا وہ آپ سے دور ہوجائے ۔ آپ کو تنہا چھوڑ جائے ۔ ایسے لوگ جو آپ سے چمٹے رہتے ہیں اُنھیں لنگوٹی کہا جاتا ہے ۔ میرا خیال ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی چاہیں گے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اُن کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں ۔ باالفاظ دیگر غائب ہوجائیں ، اُن سے دور ہوجائیں لیکن مسٹر ٹرمپ اس تعلق سے مودی کی خواہش کا احترام نہیں کریں گے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ ، ہندوستان ۔ پاکستان تنازعہ میں ایک فریق ہے ۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 22 اپریل 2025 ء کو کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا جس میں 26 معصوم و بے قصور انسانوں کی جانیں گئیں ( جن میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی باشندہ شامل ہیں) اس دہشت گردانہ واقعہ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے اور بات پاکستان میں واقع دہشت گردوں کے کئی اڈوں پر سرجیکل حملوں تک پہنچ گئی ۔ جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے وہ جب بھی کہیں خطاب کرتے ہیں یا لکھتے ہیں اس میں یہ قرار واضح کرتے ہیں وہ ایک فریق ہیں اسٹیک ہولڈر ہیں ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انھوں نے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروائی اور اس کیلئے دونوں ملکوں سے تجارت نہ کرنے کی دھمکی دی اور اُن کی وہ دھمکی اثر کرگئی ۔ ایک طرف صدر ٹرمپ بار بار دونوں ملکوں کی جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھ رہے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے وزیراعظم مودی تاحال خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مجھے شبہ ہیکہ صدر ٹرمپ کے اس دعویٰ پر مودی جی چراغ پا ہوگئے ہیں اور اس گھڑی کو کوس رہے ہوں گے ، اُن لمحات پر افسوس کا اظہار کررہے ہوں گے جب انھوں نے (امریکہ کے ہوسٹن میں سال 2019 ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ) پرجوش انداز میں اب کی بار ٹرمپ سرکار کینعرہ بلند کئے تھے تاہم ان صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہاں ! یہ اور بات ہیکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو سال 2024 ء کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ دوسری مرتبہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے اور آئندہ 3.5 سال وہ وائٹ ہاؤس میں براجمان رہیں گے ۔
بہرحال 22 اپریل کو دوسرے لیڈروں کی طرح مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلگام دہشت گردانہ واقعہ پر صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ۔ 25 اپریل کو ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ( ہندوستان اور پاکستان ) مل کر اس تنازع کو حل کرلیں گے جبکہ 7 مئی کو ہندوستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے میزائیلوں اور ڈرونس سے پاکستان میں چنندہ مقامات کو نشانہ بنایا لیکن اُس نے واضح کیا کہ وسیع پیمانے پر جنگ شروع کرنے اُس کا ارادہ نہیں ہے تب ٹرمپ کا ایک بیان منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ یہ لڑائی جلد ہی ختم ہوجائے گی ۔ اس کے دوسرے دن جبکہ لڑائی جاری تھی انھوں نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی اور کچھ یوں کہا ’’اگر میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو اس کیلئے موجود ہوں ‘‘ اس طرح ٹرمپ ہند ۔ پاک کشیدگی بلکہ لڑائی کو ختم کرنے کی پیشکش کرتے رہے ۔
حیران کن اور دلچسپ : 8 اور 9 مئی کی شب کچھ تبدیلی آئی اور مجھے شبہ ہے کہ وہ تبدیلی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے چینی ساختہ لڑاکا طیارے وہ میزائیلس اور ترکی ساختہ ڈرونس تعینات کئے ہیں اس کا پتہ چلتے ہی ہندوستان نے مزید چوکسی اختیار کرلی ۔ ہندوستانی فوج کے سینئر عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حملوں کی ہر لہر کو ہندوستان نے بڑی کامیابی سے ناکام بنادیا ۔ اگرچہ دو دن بعد ہندوستان نے کچھ ’’نقصان ‘‘ کا اعتراف کیا ہے اور کہا گیا کہ جنگ میں دونوں فریقوں کا نقصان ناگزیر ہوگا ۔ ویسے بھی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیکس کے بعد ہندوستان میں کسی قسم کی پریشانی اور بے چینی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی ہندوستانی عوام پریشان ہوئے وہ حکومت اور فوج کی طرح پرسکون رہے لیکن خطرہ کی گھنٹی 10 مئی کو اُس وقت بج اُٹھی جب مسٹر ٹرمپ اپنی نجی سوشل میڈیا سائٹ پر اپنا ایک بیان پوسٹ کیا ۔ ٹروتھ سوشل پر یہ بیان شام 5:25 منٹ پر پوسٹ کیا گیا جس میں انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں سے رات دیر گئے تک طویل بات چیت کاحوالہ دیتے ہوئے امریکی ثالثی کا ذکر کیااور کہا کہ وہ یہ اعلان کرتے ہوئے مسرت محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان مکمل اور فوری جنگ بندی پر راضی ہوگئے ہیں اور اُس کے لئے دونوں ملکوں کو وہ ( ٹرمپ ) مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔اس کے چند منٹوں بعد امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ نے ٹوئیٹ کیا کہ ہندوستان اور پاکستان ایک غیرجانبدار مقام پر بات چیت کریں گے ۔میڈیا کے ذریعہ یہ رپورٹس منظرعام پر آئیں کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے پچھلی رات ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ خطرہ کی گھنٹی بجانے والے خفیہ معلومات کاتبادلہ کیا چنانچہ کم از کم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ، امریکی نائب صدر اور امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کے ٹویٹس حیران کن اور دلچسپ رہے ۔
آپ کو بتادیں کہ 10 مئی کی شام 6 بجے ہندوستانی معتمد خارجہ وکرم مسری نے ہندوستان اور پاکستان کے DGMOs کے درمیان سہ پہر 3 بجکر 35 منٹ پر بات چیت کی تصدیق کی اور ساتھ ہی انھوں نے شام 5 بجے سے جنگ بندی پر موثر عمل آوری سے متعلق بھی بتایا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ لڑائی رُک گئی ۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ مسٹر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان تو کیا لیکن حقائق کے انکشاف سے گریز کیا ، مجھے خوشی ہے کہ ہماری دفاعی فورسیس نے بڑی بہادری کے ساتھ لڑا اور بے شمار کامیابیاں حاصل کی ۔