پارلیمنٹ میں بی جے پی کمزور پڑگئی۔ اسپیکر بھی تنقید کی زد میں

   

روش کمار

لوک سبھا میں ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ اپوزیشن انتہائی جارحانہ موڈ میں ہے ۔ 18 ویں لوک سبھا کے قائد اپوزیشن راہول گاندھی سے لیکر ترنمول کانگریس کے مہوہ موئتر اور ابھیشک بنرجی ، اکھیلیش یادو سے لیکر دوسرے اپوزیشن ارکان مودی حکومت پرتابڑتوڑ حملے کررہے ہیں ۔ پورے دلائل کے ساتھ اس کی خامیوں اس کی ناقص کارکردگی کو عوام کے سامنے لارہے ہیں ۔ نتیجہ میں مودی اینڈ پارٹی تلملا رہی ہے ۔ اپوزیشن ارکان اسپیکر اوم برلا کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بحیثیت اسپیکر ان کے فرائض یاد دلارہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اسپیکر کو ان کے فرائض یاد دلاتے ہوئے غیرجانبدار رہنے کا مشورہ دینے پر ترنمول کانگریس کے ابھیشک بنرجی کافی چرچا میں ہیں یہ الگ بات ہیکہ گودی میڈیا پارلیمنٹ میں ان کی حق گوئی پر توجہ دینے میں شائد جان بوجھ کر ناکام رہا ہے ۔ لوک سبھا میں اسپیکر کی جانبداری پر سوال اُٹھاتے ہوئے مغربی بنگال کے ڈائمنڈ باربر پارلیمانی حلقہ سے نمائندگی کرنے والے ابھیشک بنرجی نے جو چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کے بھتیجہ ہیں ۔ اسپیکر کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کا یوں احساس دلانے کی جرات کی ’’ سر آپ اپنے عہدہ کا مان ( لاج ) رکھئے ان کو اٹھ کر بولئے کہ معافی مانگیں تب کہیں جاکر میں اپنا خطاب جاری رکھوں گا نہیں سر! آپ کو اس معاملہ میں مداخلت کرنی ہوگی ، سر ! آپ اس ایوان کے اسپیکر ہیں ‘‘ 60 سال پہلے جواہر لال نہرو کی بات کرے گا دوسرے قائدین کی بات کریں گے تو آپ ( اسپیکر ) کچھ نہیں بولیں گے اور جب میں 5 سال پہلے کی نوٹ بندی کی بات کرتا ہوں تو آپ کہتے ہیں کہ تازہ مسائل پر بو لئے ۔ سر ! یہ بات نہیں چلے گی ( درمیان میں اسپیکر بار بار انہیں یہ کہہ کر ٹوکتے رہے کہ بجٹ پر بو لئے ) سر یہ مجھ پر الزام عائد کررہے ہیں جبکہ میں پڑھ کر آپ کو اور ایوان کو بتاتا ہوں ۔ پی ایم کے پاس ٹیلی پیرامیٹرہوتا ہے اور پورا دیش کاغذ مانگ رہا ہے یہ بی جے پی ہے اور اس کا اصل چہرہ ہے ‘‘ ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ابھیشک بنرجی اور لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے درمیان لفظی جنگ کی کافی چرچا ہے ۔ ابھیشک بنرجی نے جس جارحانہ انداز میں اسپیکر کے سامنے اپنی بات رکھی اسپیکر نے بھی اسی شدت کے ساتھ اپنی بات رکھوں ۔ اپوزیشن اور اسپیکر کے درمیان میں جارحانہ انداز میں الفاظ کا تبادلہ دیکھنے کے لائق ہے ، یہ بھارت کے پارلیمانی تاریخ کے صفحات کو اس مرتبہ الگ طریقے سے بھرتے جارہا ہے ۔ دوسری بات اسپیکر لوک سبھا نے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بھی اس بار اسپیکر صاحب کیلئے ایوان کا تجربہ نیا لگ رہا ہے اورچلینجزپہلے سے بڑھ گئے ہیں ۔ ایوان میں اپوزیشن ارکان انتہائی جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں وہ خاص طور پر ترنمول کانگریس کے ارکان بڑی تیز اور گرجدار آواز میں مسائل اُٹھاکر اسپیکر اور سرکاری بنچس دونوں پر ایسا لگ رہا ہے کہ خوف طاری کررہے ہیں اس لئے 17 ویں لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا اور 18 ویں لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کے میعاد میں کافی فرق ہونے جارہا ہے ان کے ساتھ اپوزیشن ارکان کی تکرار ہو یا تنازع ہو دونوں ہی حالات میں لگتا ہے کہ اسپیکر صاحب کو نئے سرے سے خود کو اڈجسٹ کرنا پڑرہا ہے ۔ صدر جمہوریہ کے دونوں ایوانوں سے مشترکہ خطاب کے دوران راہول گاندھی نے کہہ دیا کہ آپ مودی جی سے جھک کر ہاتھ ملاتے ہیں اور مجھ سے پیٹھ سدھی رکھ کر آپ کو کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں ۔ اکھیلیش یادو نے کہہ دیا کہ جس ایوان سے میں آیا ہوں وہاں اسپیکر کی کرسی بہت اونچی ہے اس طنز میں بہت نزاکت ہے بہت شائستگی ہے اور انہوں نے بڑی ہوشیاری سے وہ بات کہہ دی جو کئی بار صاف صاف کہنے سے بھی نہیں کہی جاسکتی ہے تھوڑی مشکل حکمراں جماعت کو حکمران اتحاد کو بھی ہورہی ہے ان کی بھی اسپیکر سے اپنی شکایات ہیں اب صدر جمہوریہ کے خطاب پر قائد اپوزیشن راہول گاندھی بولنے لگے تب وزیر داخلہ امیت شاہ کھڑے ہو کر اسپیکر سے ہی پناہ مانگنے لگے اور حکمراں جماعت کی طرف سے اصول بتائے جانے لگے کہ ایک اسپیکر کو کیا کیا کرنا چاہئے ، ان کے حقوق بتائے جارہے تھے ۔اپوزیشن غیرجانبداری نبھانے کو لیکر اسپیکر سے لگاتار سوال کرتے رہتی ہے لیکن بحث کے دوران اسپیکر اپوزیشن کی بھی بات مانتے نظر آتے ہیں اور کئی بار انکار کرتے بھی ، کئی بار درمیانی راستہ نکال لیتے ہیں جب ابھیشک بنرجی اس بات پر اڑ گئے کہ حکمراں جماعت کے جس رکن پارلیمنٹ نے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کا ایوان میں نام لیا ہے اُسے معذرت خود ہی کرنی پڑے گی تو یہ تنازع اسپیکر اور رکن کے درمیان تکرار اور لفظی جنگ کا باعث بن گیا ۔ اسپیکر نے آخر کیا راستہ نکالا اسے جاننے کیلئے آپ اس بحث کے حصہ کو پارلیمنٹ ٹی وی پر پورا دیکھ سکتے ہیں کیسے اسپیکر اوم برلا کے کرسی صدارت پر بیٹھتے ہی معاملہ گرم ہوتا ہے اور اس کا حل بھی نکل آتا ہے ’’ اسپیکر نے ایوان میں اپوزیشن کے جارحانہ رویہ کے درمیان مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اس ایوان کا رکن نہیں ہے اس کے خلاف تنقید کرنے سے گریز کیا جائے ۔ ترنمول کانگریس کے ایک رکن کو بڑے زور دار انداز میں اسپیکر سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ جب بی جے پی ارکان بولتے ہیں تو انہیں روکتے نہیں بولنے دیتے ہیں آخر کیوں ؟ ایک مرحلہ پر اسپیکر نے ٹی ایم سی کی شعلہ بیان رکن مہوہ موئتر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مجھے ہدایات دیں گی ؟ ابھیشک بنرجی کا ایوان میں یہ کہنا تھا ’’ سر میں ایک چیز واضح کرتا ہوں عزت مآب اسپیکر نے کہا کہ جو اس ایوان کے رکن نہیں ہیں کوئی بھی رکن ان کے خلاف کوئی بھی تبصرہ یا تنقید نہیں کرے گا ۔ سر میں آپ سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کیا ایوان کی رکن ہیں ؟ نہیں ہے تو پھر انہوں نے کیوں تبصرہ کیا ۔ سر آپ اپنے عہدہ کا مان رکھئے سر ان کو اُٹھ کر بو لئے کہ معذرت خواہی کریں تب میں اپنی تقریر جاری رکھوں گا نہیں سر ! آپ کو مداخلت کرنی پڑے گی ۔ سر آپ اس ایوان کے اسپیکر ہیں آپ انہیں بو لئے کہ معذرت خواہی کریں ۔ اسپیکر نے جواب میں کہا کہ آپ کو تقریر جاری رکھنا ہے تو رکھئے ان کا نام ایوان کے ریکارڈ سے نکال دیا، آپ مجھے ہدایت مت دیجئے کہ انہیں معذرت خواہی کیلئے کیوں ؟ آپ مجھے ہدایت نہیں دے سکتے ۔
راستہ یہ نکلا کہ اسپیکر اوم برلا نے ممتا بنرجی کا نام ریکارڈ سے نکال دیا اور ابھیشک بنرجی نے اپنا خطاب جاری رکھا اس صورتحال سے لگا کہ 18 ویں لوک سبھا میں ایوان کے رکن اور قائد بنے رہنے کیلئے بھی اپنا فرض ادا کرنے کیلئے بھی دونوں کو پوری طرح اب محتاط اور چوکس رہنا ہے ۔ ہر دن کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس سے یہی سیکھنے کو ملتا ہے کہ اب بناء تیاری کے یہاں کوئی نہیں آسکتا پتہ نہیں کب کونسا چیلنج کس کیلئے کھڑا ہوجائے ۔ ایوان کا ہوم ورک اچھا تو ہونا ہی چاہئے اور اصول و قواعد کی سمجھ پکی بھی تب ہی آپ حاضر جوابی کے ذریعہ بحث کو سنبھال پائیں گے ۔ ابھیشک بنرجی ڈائمنڈ ہارپر پارلیمانی حلقہ سے دسری بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں نوجوان رکن پارلیمنٹ ہیں لیکن جب اسپیکر اوم برلا نے انہیں ٹوکا کہ آپ نوٹ بندی کا ذکر نہ کریں وہ پرانی بات ہوچکی ہے تو بنرجی نے انہیں ماضی کے ذکر کی یاد دلا دی ۔ جس پر ابھیشک بنرجی کا جواب تھا کہ کوئی 60 سال پہلے جواہر لال نہرو اور دوسرے قائدین کی بات کرے گا تب آپ کچھ نہیں کہیں گے میں 5 سال پہلے کی نوٹ بندی کی بات کروں گا تو آپ کہیں گے کہ تازہ مسائل پر بات کیجئے ۔ سر ! ایسا نہیں چلے گا ۔ میں بجٹ پر ہی بول رہا ہوں جب حکمراں جماعت کے ارکان سو سال پچاس سال پرانے واقعات مثلاً ایمرجنسی وغیرہ کے بارے میں بات کررہے تھے تب آپ ( اسپیکر ) خاموش رہے اور اب میں نوٹ بندی کی بات کررہا ہوں آپ کو اعتراض ہے واہ سر واہ ٹی فار ٹریجڈی اور یہ ایک ٹریجڈی ہے ۔ تو آپ نے دیکھا کہ اس بحث کے دوران کیسے جواب آنے پر اس سے کنارہ بھی کرلیا گیا ، نوٹ بندی پر نہیں بولنے کا جواب جب یہ آیا کہ یہاں ماضی کی چرچا کیوں ہوئی تو اسپیکر صاحب نے بھی ٹھیک اسی طرح سے اسے نظرانداز کردیا جیسے کرکٹ کی پچ پر بلے باز کچھ گیندوں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ ایوان میں ہر ٹوکا ٹوکی پر اگر فیصلہ ہونے لگ جائے گڑبڑ ہونے لگ جائے تو شام تک وہ ارکان سے خالی ہوجائے گا ۔ اٹھارویں لوک سبھا کی ابھی تک سب سے اچھی بات یہ رہی کہ اپوزیشن اور اسپیکر کے درمیان خوب بحث و تکرار ہوئی مگر ابھی تک 100 ارکان لوک سبھا معطل نہیں کئے گئے اور نہ ہی معطل کرنے کا انتباہ سنائی دیا ۔
پچھلی لوک سبھا میں معطل کرنے کی مانگ عام ہوگئی تھی دیکھتے ہیں کہ یہ کب تک یہاں اس بار نہیں ہوتا ہے ۔ اپوزیشن بھی محتاط و چوکس ہے ۔ صحیح وقت پر یاد دلا دیتا ہے ۔ ابھیشک بنرجی نے ایوان میں بی جے پی ارکان کو نشانہ بنانے کے ساتھ وزیراعظم کو بھی لیپٹ میں لے لیا ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی قائدین کہہ رہے ہیں کہ میں کاغذ دیکھ کر پڑھ رہا ہوں تو میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم ٹیلی پیرامیٹر دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔ انہوں نے شور مچانے والے بی جے پی ارکان سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ اپنے لیڈر کو جاکر گیان دو ۔ اس مرتبہ بی جے پی کو اپوزیشن کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی پڑے گی ۔ ایوان کے کئی مباحث سے لگتا ہے کہ بی جے پی کی تیاری کچھ کمزور ہے ۔ دس سال سے مودی مودی کرنے کی سیاست نے اسے خاص طور سے جارحانہ تو بنایا ہے لیکن ایوان میں حاضر جوابی میں خطاب میں کمال یا مہارت رکھنے کے معاملہ میں بی جے پی کے ارکان پچھڑتے نظر آرہے ہیں ۔ وہ حاضر جواب تو لگتے بھی نہیں وہ کئی بار ایسی خامیوں کو پیش کردیتے ہیں جو اب اپوزیشن کیلئے کیلئے فل ٹاس کی طرح ہوچکا ہے ۔ ابھیشک بنرجی کے مطابق بی جے پی کا نعرہ تھا ’’ جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے ‘‘ میں کہوں گا پربھورام آئے تو انصاف آیا کچھ وقت ضرور لگا لیکن انصاف آئے گا ۔ ایوان میں ایک اور فرق نظر آئے گا بی جے پی کے پاس بڑے بڑے لیڈران تھے جن کی الگ پہچان تھی وہ ترجمان کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔ آج ترجمانوں کی شکل میں یہ حالت ہیکہ اسے ٹی وی چیانل سے ترجمان لانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔