محمد ریاض احمد
نریندر مودی حکومت (مرکزی وزارت داخلہ) نے بالآخر پاپلر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر پابندی عائد کردی اور اپنے اس اقدام کی مدافعت کرتے ہوئے بتایا کہ پاپلر فرنٹ آف انڈیا (PFI) ملک کی سالمیت اقتدار اعلیٰ اور سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ اس نے کیرلا، کرناٹک اور ٹاملناڈو میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی کارکنوں کا قتل کیا۔ ایک بات ضرور ہے کہ پاپلر فرنٹ آف انڈیا اس قدری تیزی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی تھی کہ بی جے پی، اُس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دوسری محاذی سطحوں کیلئے فکر و تشویش کا باعث بن گئی تھی، اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ پاپلر فرنٹ آف انڈیا ، آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں بالخصوص وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا، ہندو واہنی، سری رام سینا اور دائیں بازو کی دوسری درجنوں تنظیموں کیلئے ایک چیلنج بن کر ابھری تھی اور یہ تنظیمیں پی ایف آئی کو اپنے لئے خطرہ سمجھنے لگی تھیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسٹوڈنٹ اسلامک موؤمنٹ آف انڈیا پر اسی طرح کے الزامات عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کی گئی تھی اور پھر اس کے بعد سال 2006ء میں پی ایف آئی کا قیام عمل میں آیا۔ کرناٹک فورم فار ڈِگنیٹی (KFD) اور نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ کے انضمام کے نتیجہ میں پی ایف آئی قائم ہوئی تھی۔ اس نے عوام کیلئے انصاف آزادی اور سلامتی کو یقینی بنانے کا نعرہ لگایا تھا۔ پی ایف آئی نے یو اے پی اے جیسے قانون کے تحت معصوم و بے قصور افراد کی گرفتاری کے خلاف بھی زبردست احتجاج کیا تھا۔ ساتھ ہی مسلم تحفظات کی مانگ بھی کی تھی۔ اس نے ببانگ دہل آر ایس ایس اور دائیں بازو کی دوسری انتہا پسند تنظیموں کو چیلنج کرتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ خود کے قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرنے والی فرقہ پرست تنظیموں نے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا، اس پر قوم دشمن ہونے کے الزام عائد کئے لیکن بڑی شرم کی بات ہے کہ ان تنظیموں کو فرقہ پرستی کے وائرس سے داغدار اپنے بھیانک اور مذموم چہرے دکھائی نہیں دیئے۔ پی ایف آئی پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے کیرلا، ٹاملناڈو اور کرناٹک میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے کم از کم 10 کارکنوں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور وہ امن و امان کیلئے خطرہ بن گئی تھی۔ ایسے میں اس پر پابندی عائد کی جانے ضروری تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 22 ستمبر کو ملک کی 15 ریاستوں میں این آئی اے دھاوے کرتے ہوئے نہ صرف پی ایف آئی کے 10 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے دفاتر کو مہربند بھی کردیا گیا تھا۔ اس کے چار پانچ دن بعد ملک کے مختلف مقامات پر این آئی اے اور نفاذ قانون کی دوسری ایجنسیوں نے دوبارہ دھاوے کئے۔ ان دھاوؤں میں 250 سے زائد پی ایف آئی کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تب سے ہی اندازہ ہونے لگا تھا کہ پی ایف آئی پر پابندی عائد کردی جائے گی اور ہمارا وہ اندازہ بالکل درست ثابت ہوگیا۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں صرف پی ایف آئی ہی واحد تنظیم نہیں جس پر پابند عائد کی جائے بلکہ دائیں بازو کی ایسی بے شمار تنظیمیں ہیں جن کے قائدین کی اشتعال انگیز، نفرت و عداوت کا زہر گھولنے والی تقاریر، بیانات اور اقدامات نے ملک کو ایک طرح سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارے جنت نشان ہندوستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ دوسرے ملکوں بالخصوص عرب و مسلم ملکوں سے تعلقات متاثر ہوئے ہیں، لیکن ان تنظیموں نے اپنی فرقہ پرستی، اقلیت دشمنی اور صرف ایک مذہب کی بالادستی، تعصب و جانبداری پر مبنی تعفن زدہ چادر اوڑھ کر اسے قوم پرستی کا نام دے دیا ہے اور خود کے قوم پرست ہونے کے دعوے کئے ہیں جبکہ محب وطن ہندوستانیوں کی نظروں میں ان کی قوم پرستی، ہندوستانی قوم پرستی نہیں بلکہ ہندوستانی اور ہندوستانی قوم پرستی کو نقصان پہنچانے والی خودساختہ فرضی اور بناوٹی قوم پرستی ہے۔ حکومت نے پی ایف آئی پر ملک کی سالمیت و اتحاد کو نقصان پہنچانے، بیرونی ملکوں سے فنڈس حاصل کرنے، بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرنے اور ملک کے امن عامہ کیلئے خطرہ بن جانے کے الزامات عائد کرکے پابندی عائد کردی۔ اچھا کیا! لیکن کیا بے قصوروں کی گرفتاری ان کے خلاف یو اے پی اے کے ناجائز استعمال کی مخالفت گناہ ہے؟ جرم ہے؟ کیا مسلم تحفظات کا مطالبہ کرنا جرم ہے؟ کیا آر ایس ایس اور دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کو ان کی حقیقت کا آئینہ دکھانا جرم ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر حکومت اور مرکزی وزارت داخلہ کا غور کرنا ضروری ہے۔ ہاں! ایک بات ضرور ہے کہ اگر کوئی تنظیم یا جماعت تشدد کا جواب تشدد سے دیتی ہے تو وہ کسی بھی طرح ٹھیک نہیں جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ اگر پی ایف آئی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس پر عائد پابندی کی، کسی کو مخالفت نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر آپ ایک ہی جرم ایک ہی گناہ کا ارتکاب کرنے والے دو افراد میں سے ایک پر پابندی عائد کردیں گے اور دوسرے کو صرف اس لئے نظرانداز کردیں کہ وہ آپ کے پریوار سے تعلق رکھتا ہے؟ اس کے قبیس کاموں سے پرتشدد کارروائیوں سے آپ کے مفادات کی نگہبانی ہورہی ہے تو پھر یہ ناانصافی جانبداری اور تعصب کے سواء کچھ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک تنظیم پر پابندی عائد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کام کیا ہے جبکہ فرقہ پرستی کا زہر گھول کر مسلمانوں اور عیسائیوں کی زندگیوں اجیرن کرنے والی ہجومی تشدد، لو جہاد، گھر واپسی، تحفظ گاؤ، حجاب، لباس، داڑھی، ٹوپی، لینڈ جہاد، یوپی ایس ایس جہاد کے نام پر ملک میں قتل و غارت گری کا بازار کرنے والے کورونا جیسے وائرس کو تبلیغی جماعت سے جوڑ کر ایک کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف رہنے والی تنظیموں کو تو آپ نے نظرانداز کردیا۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اس لئے تعصب و جانبداری برت رہے ہیں، کیونکہ وہ آپ کے پریوار کا ایک حصہ ہے یا پھر آپ ان تنظیموں سے ڈر و خوف میں مبتلا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر پی ایف آئی ملک میں امن و امان کیلئے خطرہ ہے تو پھر وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو واہنی، سری رام سینا، اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا جو کچھ کررہی ہیں کیا اس سے ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان امن و محبت فروغ پارہے ہیں۔ آج ملک میں جو اشتعال انگیز کی جارہی ہے، زہریلے بیانات دیئے جارہے ہیں، کیا اس سے ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ مل رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ لباس سے پہچاننے، شمشان گھاٹ، قبرستان کا نعرہ لگانے والے، کرنٹ یا شاک کی باتیں کرنے والے عناصر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور دلچسپی کی بات ہے کہ انہیں کسی بھی تنظیم یا جماعت پر پابندی عائد کرنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ آج سارا ہندوستان جانتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ پرستی کا زہر کون گھول رہا ہے؟ کس کے اشاروں پر ہجومی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں؟ کون مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کررہا ہے؟ کون میڈیا کے ذریعہ بدامنی و بے چینی کا ماحول پیدا کررہا ہے؟ اس کے باوجود ان شخصیتوں اور تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ان پر پابندی عائد کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ واضح رہے کہ پاپلر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی دوسری محاذی تنظیموں ریحاب انڈین فاؤنڈیشن، امپاور انڈیا فاؤنڈیشن، آل انڈیا امام کونسل، نیشنل کانفیڈریشن آف ہیومن رائٹس اور نیشنل ویمن فرنٹ پر پابندی عائد کرکے حکومت نے ایسا ظاہر کیا کہ اس نے بہت بڑا تیر مار لیا ہو۔ اس سلسلے میں کمیونسٹ قائدین، کانگریس کے لیڈران، لالو پرساد یادو، ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے صاف طور پر کہا کہ اگر ملک میں فرقہ پرستی ، پرتشدد کارروائیوں اور اقلیتوں کو نشانہ بناکر امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے والی تنظیموں پر امتناع عائد کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے آر ایس ایس پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے سینئر لیڈر ایم کے منیر ،کانگریس رکن پارلیمنٹ و لوک سبھا میں پارٹی چیف وہپ کے سریش کے ساتھ لالو پرساد یادو نے پرزور انداز میں کہا کہ ملک میں فرقہ پرستی، فرقہ وارانہ تشدد کیلئے سب سے پہلے آر ایس ایس پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ قائدین کوئی گلی کے لیڈر نہیں ہیں۔ کیا انہیں پتہ نہیں کہ آر ایس ایس، بی جے پی اور سنگھ پریوار کی سرپرست تنظیم ہے۔ بی جے پی خود اس کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ ایسے میں کیا وہ آر ایس پر پابندی عائد کرپائے گی؟ ہرگز نہیں۔ آر ایس ایس تو دور مودی حکومت، وی ایچ پی، بجرنگ دل، سری رام سینا، ہندو واہنی، اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا اور دوسری تنظیموں پر بھی پابندی عائد نہیں کرسکے گی۔ ہاں! عدلیہ کے ذریعہ ہی یہ ممکن ہے۔اپوزیشن قائدین کے مطابق حکومت نے اگرچہ پی ایف آئی پر پابندی عائد کردی لیکن آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں کو یکسر نظرانداز کردیا حالانکہ آر ایس ایس پر مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اُن ہی سردار پٹیل نے پابندی عائد کی تھی جن کے آج یہ لوگ بلند قامت مجسمے بناکر ہندوتوا کے آئیکن کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔ آر ایس ایس پر دوبارہ پابندی1975-77ء ایمرجنسی کے دوران عائد کی گئی تھی اور پھر 1992ء میں شہادت بابری مسجد کے بعد اس پر امتناع عائد کیا گیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پی ایف آئی پر پابندی کا فیصلہ اس لئے جانبدارانہ اور غیرمنصفانہ محسوس ہورہا ہے کیونکہ انسانی حقوق کے علمبردار اور معقولیت پسندوں جیسے صحافی گوری لنکیش، ڈاکٹر کلبرگی، پنسارا اور نریندر دابھولکر کے قاتلوں اور ان کی تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، ایسے میں ان کے حامی عناصر سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ حد تو یہ ہے کہ سابق معتمد داخلہ آر کے سنگھ نے ایک مرحلہ پر یہاں تک کہا تھا کہ ملک میں دہشت گردانہ واقعات میں آر ایس ایس کے کم از کم 10 کارکن ملوث ہیں، اس کے باوجود اس پر پابندی عائد نہیں کی جاتی۔ بی جے پی حکومت میں اس پر خاک پابندی عائد کی جائے گی۔ فی الوقت ملک میں آر ایس ایس کا زور ہے اور بی جے پی کا اقتدار ، ایسے میں اچھی توقع رکھنا فضول ہے۔