ظفر حیدرآبادی
ہمارے ملک ہندوستان کے وزیر اعظم صاحب پاکستان میں سرجیکل اسٹرائک کرواکر 56 انچ کا سینہ لیکر اکڑ اکڑ کر تقریریں کرتے پھر رہے تھے۔ جس کا مشاہدہ تمام ہندوستانیوں نے نیوز چیانلوں کے ذریعہ کیا اور آج چین کے ساتھ مشرقی لداخ کا معاملہ سامنے آیا تو بے چارے راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ کو قوم کو جواب دینے کے لئے بلی کے بکرے بنا دیا۔ فرمانبردار امیت شاہ تین ماہ سے کہاں چھپے بیٹھے تھے یا کورنٹائن میں چلے گئے تھے۔ اب سامنے آئے ہیں تو ہندوستان کا دفاع کرنے کے لئے نہیں بلکہ وزیر اعظم مودی جی کا دفاع کرنے کے لئے آئے ہیں۔ بقول کانگریس کے ترجمان منیش تیواری کے سابق فوجی جنرلس اور ماہرین دفاع نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ہندوستان کے لگ بھگ 40-60 مربع کیلو میٹر علاقہ پر چین نے غیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے علاقہ پر چین کو قبضہ کرنے کیسے دیا گیا؟ چین کے ساتھ تو سرجیکل اسٹرائک کا معاملہ بھی نہیں تھا۔ آمنے سامنے دوبدو کی لڑائی تھی۔ چین کے سپاہیوں کو چین کے علاقہ میں اندر دور تک دھکیل دیتے مگر معاملہ الٹا ہوگیا۔ چینی سپاہی ہماری سرحد میں 40-60 مربع کیلو میٹر اندر تک گھس آئے اور ہماری زمین پر قبضہ کرلیا۔ یہ ہمارے فوجی جوانوں کی کمزوری نہیں بلکہ فوج کو حملہ کرنے کا آرڈر دینے میں دیر کردی گئی ہوگی، کیونکہ یہاں کامیابی کا کریڈٹ ہر کوئی اپنے سرلینا چاہتا ہے۔ انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی بعض دفعہ نقصان بھی پہنچا دیتی ہے۔ ہم سب ہندوستانی جانتے ہیں کہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک ہوا اور کامیابی کا کریڈٹ کس کے سر گیا۔ بقول وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ’’میں عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ملک کی قیادت طاقتور ہاتھوں میں ہے اور ہم ہندوستان کے فخر اور خود داری پر کسی بھی قیمت سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘۔ اور بقول ہمارے وزیر داخلہ امیت شاہ کے ’’نریندر مودی نے سرجیکل اسٹرائک‘‘ اور ہوائی حملوں کے ذریعہ ساری دنیا کو قائل کرادیا‘‘۔ تسلسل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’ہندوستان کی سرحدات میں کسی بھی مداخلت کاری پر وزیر اعظم مودی کی قیادت کے تحت سزا دی جائے گی‘‘۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ ساری دنیا کو کیا قائل کرایا گیا اور چین کو کیا سزا دی گئی۔ جو فوجیوں اور خیموں کے ساتھ ہماری سرزمین پر قبضہ کئے ہوئے بیٹھا ہے۔ ہمارے یہاں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’بے حیا بولے تو ایم اییّابولا‘‘۔
پلوامہ واقعہ میں بھی کئی ہندوستانیوں نے محسوس کیا کہ کس طرح CRPF کے 40 سے 45 جوانوں کی قربانی دی گئی۔ اپنے ہی علاقہ میں معقول سیکوریٹی کے باوجود اندر گھس کر جوانوں پر حملہ کرنے کی کس کو ہمت ہوئی اور کہا گیا وہ دعویٰ کے ملک کی قیادت طاقتور ہاتھوں میں ہے۔ رہا سرجیکل اسٹرائک کا معاملہ تو آج کل سٹیلائٹ کے ذریعہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی تصویر دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ راہول گاندھی نے ثبوت مانگا تو بتلایا نہیں گیا اگر بتلا دیتے تو راہول گاندھی کے ساتھ ساتھ ساری قوم خوشیاں مناتی۔ بعد میں اطلاع ملی کے رات کے اندھیرے میں جاکر جھاڑیوں میں کچھ بم گراکر آگئے اور اس بات کو تقویت پہنچی کہ نہ دہشت گردوں کی کوئی بلڈنگ تباہ ہوئی اور نہ کسی دہشت گرد کے مرنے کی اطلاع آئی۔ اور جب دن کے اجالے میں پاکستان پر فضائی حملہ کیا گیا تو اس کی حقیقت بھی ساری قوم اور ساری دنیا کے سامنے آگئی کے ہمارے جہاز کو مار گرادیا گیا اور پائیلٹ ابھینندن اپنی جان بچاکر پاکستانی علاقہ میں کود گیا اور بعد میں اس کے جو بیانات سامنے آئے وہ بھی ساری قوم کے سامنے ہیں۔ پھر اسے خاموشی سے پس منظر سے ہٹا دیا گیا جو اپنی جان پر کھیل کر حملہ کیا تھا اور اس کا کریڈٹ دوسروں نے اپنی جئے جئے کار کے ذریعہ خوب لیا۔ اگر کسی ملک کی کرکٹ ٹیم ورلڈ کب جیتی ہے تو وہ کپ کو اٹھاکر سارے گراونڈ کا چکر لگاتی ہے اور خوشیاں منائی ہے۔ لیکن افسوس کہ سرجیکل اسٹرائک اور فضائی حملے کرنے والے پائیلٹوں کو نہ تو قوم کے سامنے لایا گیا اور نہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ اگر کسی کو کریڈٹ لینا ہے تو کوئی کارنامہ بتا کر کریڈٹ لو۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کہتے ہیں کہ ’’یہ 1962 کا ہندوستان نہیں رہا اور اس ملک کی قیادت کانگریس نہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی جیسے باہمت لیڈر کرتے ہیں‘‘۔ روی شنکر پرساد نے کہا کہ 1962 کی جنگ میں چین نے ہندوستان کو شکست دی تھی اس وقت کانگریس برسر اقتدار تھی‘‘۔ ٹھیک ہے بقول آپ کے 1962 میں جنگ ہوئی تھی تو شکست ہوئی تھی لیکن یہ تو بتلائیے کہ آپ کے دور اقتدار میں اور آج 2020 میں آپ جیسے باہمت لیڈروں کی قیادت میں چین کے خلاف آپ کو کیا کامیابی ملی۔ جب ایک چھوٹا اور کمزور ملک سامنے آتا ہے تو آپ کے سرجیکل اسٹرائک اور فضائی حملے شروع ہو جاتے ہیں اور جب طاقت میں آپ کے ہم پلہ ملک چین آتا ہے تو بقول آپ کے ’’ہم تنازعات کی پرامن یکسوئی چاہتے ہیں‘‘۔ جلدی کیجئے دیر مت کیجئے ورنہ چین مزید علاقہ ہڑپ کر لے گا۔ آپ کی خارجہ پالیسی بھی ناکام ہوچکی ہے۔ اب ہمارا ہم خیال ملک نیپال بھی ہم کو آنکھیں دکھانے لگا ہے۔
کریڈٹ کی اگر بات آتی ہے تو وہ داخلی پالیسی، خارجہ پالیسی اور فوج کا صحیح استعمال کرکے کریڈٹ لیا جاسکتا ہے۔ خالی باتوں سے اور اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننے سے کریڈٹ نہیں ملتا۔ داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں کو آپ کی حکومت نے تباہ و برباد کردیا۔ داخلی طور پر قوم میں نفرت و تعصب کی سیاست اپناکر مذہب کی بنیاد پر قوم میں تفرقہ پیدا کررہے ہیں اور خارجی پالیسی کے تحت نیپال، چین اور پاکستان ہم سے ناراض ہیں اور عرب ممالک ہمارے شہریوں کو ملازمتوں سے نکال دینے کی باتیں کررہے ہیں۔ کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے 56 انچ کے سینے کی ضرورت نہیں ہے اس کے لئے صلاحیت اور سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اور ہندوستان میں اگر کوئی کریڈٹ حاصل کئے ہیں تو دوہی نام قابل ذکر ملتے ہیں۔ ایک سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کا جنہوں نے اپنی صلاحیت کے ذریعہ قوم کے لئے پرتھوی نام کا میزائل تیار کیا جن کا نام سنتے ہی قوم احترام میں اپنا سر جھکادیتی ہے۔ حقیقت میں وہ بھارت رتن تھے اور حقیقی معنوں میں وہ کریڈٹ کے حقدار تھے۔ دوسرے اندرا گاندھی جنہوں نے اپنی سیاست کے ذریعہ مشرقی پاکستان کو 1971 میں پاکستان سے الگ کرکے بنگلہ دیش بنایا اور تقریباً ایک لاکھ کے قریب ہتھیار بند فوج کو
Surrender ہونے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ یقینا وہ ہندوستان کی بھارت رتن ہیں اور کریڈٹ حاصل کرنے کی حقدار ہیں۔