پرانی گاڑیوں پر پابندی، آلودگی کے مسئلہ کا حل نہیں۔

,

   

Ferty9 Clinic

حیدرآباد:  کہتے ہیں کہ ہندوستان کو تین چیزوں پاپولیشن (آبادی)، پولیوشن (آلودگی) اور پالیٹیشنس (سیاستدانوں) سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ جہاں تک آلودگی کی اقسام کا سوال ہے آلودگی چاہے وہ کسی قسم کی کیوں نہ ہو انسانی صحت کیلئے بہت خطرناک ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں ہم آبی آلودگی، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی، فضائی آلودگی، روشنی کی آلودگی، آبی آلودگی کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جس کے انسان پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم پچھلے دو دہوں سے آلودگی کی اقسام میں خاص طور پر ہمارے وطن عزیز میں ایک اور اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے فرقہ پرستی کی آلودگی۔ یہ ایسی آلودگی ہے جس سے فرقہ پرست درندگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

بہرحال ہر قسم کی آلودگی انسانوں اور انسانیت کیلئے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ بہرحال فضائی یا ماحولیاتی آلودگی بڑی تیزی سے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ہمارا شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد بھی اس سے متاثر ہے اور شہریوں نے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے لیکن افسوس کے جہاں حکومت آلودگی پر قابو پانے عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں وہیں عوام بھی اپنی ذمہ داریوں سے تساہل برتتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بزرگ شہری جناب او اے چڈا اسٹیٹ ہیلتھ ٹرانسپورٹ آفیسر میڈیکل اینڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ (ریٹائرڈ) نے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان سے ملاقات کرتے ہوئے شہر حیدرآباد میں بڑھتی آلودگی پر تشویش کا اظہار کیا اور تجاویز بھی پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے آلودگی کے ذرائع کو سمجھنے سے قاصر ہیں اگر حکام مسئلہ کی جڑ کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس مسئلہ کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید بتایاکہ کچھ عرصہ سے قدیم گاڑیوں پر پابندی عائد کرنے پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے اور اس مسئلہ پر بے شمار خبریں اور رپورٹس بھی شائع ہوچکی۔ اس ضمن میں انہوں نے اخبار سیاست کی اشاعت مورخہ 6 نومبر کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت بہار نے 15 سال سے زائد پرانی گاڑیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ماحول کو آلودگی سے پاک رکھا جاسکے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ حکومت تلنگانہ بھی 15 سال پرانی گاڑیوں پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہی ہے لیکن قطعی فیصلہ ہنوز نہیں کیا گیا۔ بتایا جاتا ہیکہ اس مسئلہ پر حکومت تلنگانہ محکمہ ماحولیات کے ماہرین سے تبادلہ خیال کرے گی۔

مسٹر اوپی چڈا کے مطابق 8 نومبر کو بھی روزنامہ سیاست میں شائع ایک خبر میں بتایا گیا کہ ملک میں 15 سال سے زیادہ پرانی گاڑیوں پر پابندی عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ ایم ؍ ایس ماروتی موٹرس اور ٹوئوٹا موٹرس نے نوئڈا میں ایسے پلانٹس قائم کئے ہیں جہاں ان پرانی گاڑیوں کو ری سائکلنگ کے ذریعہ دوبارہ استعمال کے قابل یا فٹ بنائیں گے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ری سائکلنگ کے بعد ان کاروں کو کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک اور خبر آئی تھی کہ 15 سال سے زائد عرصہ تک چلی ہوئی گاڑیوں کے رجسٹریشن کی تجدید کی فیس 500 روپئے سے بڑھا کر 1000 روپئے کردی جائے گی لیکن یہ بھی غیرمنصفانہ عمل ہوگا۔ یہاں یہ تذکرہ ضروری ہوگاکہ کسی بھی گاڑی میں آلودگی کا ذریعہ دراصل انجن کی حالت ہوتا ہے اس کی عمر نہیں۔

عام طور پر جب کوئی گاڑی ایک لاکھ تا 1.5 لاکھ کیلو میٹر چلتی ہے اس کے Mating Parts جیسے پسٹن، رنگ، سلیوز، مین اور کنکٹنگ بیرنگ وغیرہ تھک جاتے ہیں اور انجن آئیل جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونوآکسائس کا گاڑیوں سے اخراج عمل میں آتا ہے۔ اس قسم کی گاڑیوں کے انجن کو مذکورہ پارٹس تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک نئی جان ڈالی جاسکتی ہے۔ اس لئے گاڑیوں کے انجنوں کو دیکھنا چاہئے عمر کو نہیں۔ بعض مواقعوں میں 5 سال پرانی گاڑی کی حالت اتنی خراب ہوتی ہیکہ وہ آلودگی کا باعث بنتی ہے جبکہ 15 سال پرانی گاڑی کی حالت اس قدر اچھی ہوتی ہیکہ وہ آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔ ان حالات میں فضائی آلودگی کا حل 15 سال سے زیادہ پرانی گاڑیوں پر پابندی عائد کرنا نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ٹیکنیکل آفیسرس، میکانیکل اور آٹو موبائیل انجینئرس کو مقرر کیا جانا چاہئے تاکہ وہ صحیح فیصلہ لیں۔