پرسکون ماحول ، حلال لقمہ اور بہتر تربیت بچوں کے بنیادی حقوق

   

Ferty9 Clinic

وقف جائیداوں کے ’امید پورٹل‘ میں اندراج کیلئے عوامی تحریک کی ضرورت: مولانا حافظ ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی
حیدرآباد، 15نومبر (راست) مولانا حافظ ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عام نامپلی نے کہا کہ نئے وقف قانون کے تحت تحفظ ِ اوقاف کی خاطرتمام مساجد، درگاہوں، خانقاہوں، مدارس، عاشور خانوں اور دیگر وقف اداروں کا 5دسمبر 2025سے قبل ’امید پورٹل‘ میں اندراج لازمی ہے۔ اس کیلئے عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ ہر مسجد کے مصلی اور ذمہ دار اپنے اپنے محلوں کے مساجد کے اندراج کیلئے جلد سے جلد اس کا م کو مکمل کریں۔ مولانا محمد الحمومی نے کہا کہ ایک بہتر ماں کا انتخاب بچہ کا حق ہے۔ دوران حمل نو ماہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو پرسکون اور خوشگوار ماحول فراہم کرنا بچہ کا بنیادی اور اولین حق ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کے منہ میں حلال لقمہ ڈالنا بچہ کا حق ہے۔ بچہ کی پیدائش کے بعد گھر کا ماحول راست طور پر بچہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اللہ نے بچہ کے دماغ کا سیٹ اپ ایسا بنایا ہے کہ اس کا سب سے پہلا ہیرو اس کا باپ ہوتا ہے۔ بچہ ہر وقت اپنے باپ کی نقل کرتا ہے۔ ہم بچہ کو جو بنانا چاتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود وہ بنے، ہمارا بچہ اس کا کاپی ہوگا۔ بچوں کی تربیت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ ان کے ساتھ وقت گزاریں اور انھیں اللہ والوں کی محفلوں میں لے جائیں۔ انھیں رشتہ داری اور تعلق داری بتائیں۔ ان کو عملی زندگی اور روزمرہ کے سرد و گرم حالات سے واقف کرائیں۔ انھیں عملی زندگی کو برتنے کا سلیقہ سکھائیں۔ مولانا احسن الحمومی نے کہا کہ شادی کیلئے تمام ظاہری اور مادی تیاری کے ساتھ فکری تیاری اور روحانی تربیت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کی تربیت کیلئے تیار ہے تو ہمیں اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ بچے کی پرورش ماں کے خون سے ہوتی ہے۔ ماں کی سوچ، بچے کی سوچ، ماں کے بول بچے کے بول اور ماں کے مقاصد بچے کے مقاصد بنتے ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’ تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار ہے، ان کے بارے میں آخرت میں پوچھا جائے گا‘۔ اگر کسی کا بچہ بگڑا ہوا ہے اور وہ خراب عادتوں میں ملوث ہے؛ تو اس کا ذمہ دار اس کا باپ ہے۔ جب لڑکے کی شادی کیلئے لڑکی کی تلاش ہوتی ہے تو اس لڑکے کی ماں یہ سوچتی ہے کہ وہ اچھی بہو بنا کر لائے، لڑکا یہ سوچتا ہے کہ اسے اچھی شریک حیات ملے۔ کیا کھبی لڑکا یہ بھی سوچتا ہے کہ وہ جس خاتون کو اپنی بیوی بنا کر لا رہا ہے، اس کی گود میںاس کی آنے والی نسلیں پرورش پائیں گے۔ یہی اس کی اولاد کی اولیں تربیت گاہ ہوگی! اسی کی وجہ سے آنے والی نسل کے جسم میں خون دوڑے گا۔ انسان کی جائز خواہشات اور دیگر مقاصد تو شادی سے وابستہ ہیں ہی لیکن رسول اللہؐ نے شریک حیات کی تلاش کیلئے دین داری کو اولین ترجیح دینا ضروری قرار دیا ہے۔ جب کسی جوڑے کا رشتہ طئے ہوجاتا ہے تو اسی دن سے لڑکے کیلئے وہ وقت بڑا اہم ہوتا ہے۔ لڑکا ایک اچھا انسان اور بہتر شہری بن سکتا ہے۔ اوراگر اس کے بر خلاف خواہشات کا غلبہ ہو، آوارگی، بیہودہ خیالات، حلال و حرام کی تمیز کے بغیر پیٹ میں لقمے جائیں، تو اولاد آوارہ بنتی ہیں۔ نہ ان پر قرآن و حدیث کا اثر ہوتا ہے اورنہ وہ بڑوں کا کہنے مانتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے تو نکاح کی محفل یعنی ازدوجی زندگی کے شروع دن سے اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی۔ سورہ فاطر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’کسی کی عمر بڑھا دی جاتی اور کسی معمر شخص کی عمر گھٹا دی جاتی ہے۔ یہ سب پہلے سے لکھا ہوا ہے اور یہ اللہ کیلئے آسان ہے‘۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرامؓ نے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عمر بڑھنا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمہارا جسم طویل عرصہ تک زندہ رہتا ہے بلکہ عمر بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری سوچ، فکر اور مشن کو تمہاری آنے والی اولاد آگے بڑھاتی ہیں۔ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی کا مشن اور مقصد طئے کرلیتے ہیں اور اس میں ڈوب کر زندگی گزارتے ہیں، جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ان کی اولاد اور ان کے چاہنے والے ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ عمر کے بڑھنے کا مطلب ہے۔ جن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اور وہ محض کھانے پینے اور خواہشات نفسانی کیلئے جیتے ہیں تو ان کی عمریں ٹھٹر جاتی ہیں۔ وہ بظاہر زندہ ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان میں زندہ دلی کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ آج سائنس بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔ ہر سال تتلیوں کی ایک قسم کینڈا سے ڈھائی ہزار میل سفر کر کے کیلیفورنیا منتقل ہوتی ہے۔ لیکن وہ دوران سفر مرنے سے پہلے اپنے انڈے دیتی ہیں، اس کی اولاد پھر وہاں سے اس سفر کو شروع کرتے ہیں۔ اس طرح چھ سے آٹھ نسلوں میں سوچ و فکر منتقل ہونے کی وجہ سے وہ منزل تک پہنچ پاتی ہیں۔ یہ تو ایک معمولی پرندہ کا حال ہے۔ انسانوں میں نسل در نسل کوئی مشن اور سوچ و فکر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جب کہ ہم آج کل کسی عظیم مقصد اور بڑے مشن کے بغیر ہی شادیاں کررہے ہیں۔ ہمیں اس ررویہ کو بدلنا ہوگا۔