’پسماندہ‘ گاؤں ،تمام لوگ سرکاری ملازم

   


حیدرآباد : سنجو ایک ویجلنس آفیسر ہے۔ دامودر ایک سائنٹسٹ کے عہدے پر ہے، جی انیل کمار اگریکلچرل سائنٹسٹ کے طور پر برسرکار ہے۔ پربھاکر ایک اسسٹنٹ لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد حال میں خدمت سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ ان تمام لوگوں میں دو چیزیں مشترکہ ہیں۔ وہ تمام ایک ایسے گاؤں کے ہیں جہاں بی سی اور ایس سی کمیونٹیز کے لوگ رہتے ہیں اور ان تمام کو ملازمتیں ہیں یا تھے۔ عادل آباد ڈسٹرکٹ میں جو مڈا ولیج پنچایت کے حدود میں راجورا ہملیٹ میں آپ کا خیرمقدم ہے جس کا یہ امتیاز ہیکہ اس گاؤں کے لوگوں کی اکثریت ریاستی حکومت یا مرکزی حکومت کے محکمہ جات میں برسرکار ہے۔ ان سرکاری ملازمین میں ایک اٹنڈر سے ٹاپ سائنٹسٹ تک کے پروفائل رکھنے والے لوگ ہیں۔اس گاؤں کی آبادی 300 افراد پر مشتمل ہے اور اس میں 200 ووٹرس ہیں۔ گاؤں میں دو وارڈس ہیں۔ یہ گاؤں، جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ایس سی اور بی سی کمیونٹیز کا گاؤں ہے۔ راجورا ہملیٹ، کوبھیر سے صرف دو کیلو میٹر کی دوری پر ہے جو منڈل ہیڈکوارٹرس ہے۔ اس گاؤں کے ہر گھر میں اوسطاً دو تا تین اشخاص سرکاری ملازمت رکھتے ہیں۔ دراصل، اس گاؤں کے 95 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور اس گاؤں کے صرف 5 فیصد لوگ ہی غیرتعلیم یافتہ ہیں۔ گاؤں کی جملہ آبادی میں آٹھ فیصد بی سی طبقہ کے لوگ ہیں جبکہ مابقی ایس سی طبقہ کے افراد ہیں۔ وہاں سات ڈاکٹرس، چھ ٹیچرس، تین فوجی ملازمین، دو پنچایت سکریٹریز، و ایس آئی، دو سائنٹسٹس اور ایک ویجلنس آفیسر ہے اور ان میں باقی اٹنڈرس، آنگن واڑی اور آشا ورکرس، لکچررس ہیں یا دوسرے جابس رکھتے ہیں۔ تاہم یہ گاؤں اس کی زرعی پیداوار کیلئے بھی جانا جاتا ہے۔ منچریال میں متعین اکسائز ایس آئی سی ولاس نے کہا کہ انہوں نے اس گاؤں کے لوگوں سے تحریک حاصل کی ہے جو تمام ملازم تھے اور انہوں نے سخت محنت کی اور اکسائز ایس آئی بن گئے ہیں۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے اگریکلچرل سائنٹسٹ جی انیل کمار نے کہا کہ انہوں نے اس مقام پر پہنچنے کے لئے کافی محنت کی ہے۔ وہ ہائی اسکول پہنچنے کیلئے روزانہ دو کیلو میٹر پیدل چلا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اس گاؤں میں کوئی سڑک رابطہ نہیں تھا۔ انہوں نے یاد کیا کہ وہ کس طرح کچی سڑک کا استعمال کرتے تھے اور ہائی اسکول پہنچنے کیلئے دو ندیوں کو پار کرکے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگریکلچرل سائنٹسٹ بننے کیلئے انہوں نے کافی محنت کی ہے۔