پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
ہندوستان پڑوس میں چین کے ساتھ 3488 کلومیٹر سرحد شیر کرتا ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ کوئی بھی چین کو ہمارا پڑوسی ملک تصور نہیں کرتا اور مجھے حیرت ہے کہ آخر ایسا کیوں ؟ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کے ساتھ طویل سرحدیں رکھنے والے دو پڑوسی ملک میں ایک تو پاکستان ہے جو ہمارے ملک کے ساتھ 3310 کلومیٹر طویل سرحد شیر کرتا ہے اور دوسرا بنگلہ دیش جس کے ساتھ ہمارا وطن عزیز (4,096 کلومیٹر ) کی طویل سرحد شیر کرتا ہے۔ اس بارے میں آپ کو ایک اور اہم بات بتانا چاہوں گا کہ ہم نے ان طویل سرحدوں پر خاردار تاریں یا Fencing نصب کر رکھی ہیں اور عملی طورپر اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ان ملکوں سے ہمارے ملک میں کوئی دراندازی نہ ہو ۔ دوسری طرف نیپال بھی ہمارا پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ ہندوستان نے کھلی سرحد Open Border پالیسی اپنا رکھی ہے جس کا فائدہ یہ ہوا دونوں ملکوں کے درمیان اشیاء، خدمات اور انسانوں کی نقل و حرکت میں زبردست مدد ملی ۔ مثال کے طورپر نیپال کو ہندوستان سے بہت ساری غذائی اشیاء و دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائے جاتی ہیں اسی طرح نیپال سے بھی ہندوستان کو وہاں کی پیداوار و دیگر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔ ہم آپ کو ہندوستان کے ایک اور چھوٹے سے پڑوسی ملک بھوٹان کے بارے میں بھی بتاتے ہیں ، اس ملک کے ساتھ جو ہماری سرحد ہے وہ 578 کلومیٹر طویل ہے لیکن بھوٹان اور اس سے متصل سرحد کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جغرافیائی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ ہاں ! ہم سری لنکا کا بھی ذکر کرنا چاہئیں گے ۔ سری لنکا ایک تنگ آبنائے پالک سے علحدہ ہوتی ہے ، اس کے ساتھ ہی وہاں تاریخی و تہذیبی لحاظ سے اور کئی ایک وجوہات سے ایک بہت ہی اہم اور بعض موقعوں پر باعث مشکل پڑوسی بن جاتا ہے۔ ہاں ! مالدیپ ، ہمارے ملک سے کچھ فاصلہ پر واقع ہے لیکن چین کی بیجا مداخلت کے باوجود ہم نے مالدیپ سے بھی خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ مثال کے طورپر 1988 ء میں ہم نے مالدیپ کو ڈاکوؤں کے ایک گروپ کے زیرکنٹرول آنے سے بچایا تھا لیکن مجھے شبہ ہے کہ کسی کو اس ضمن میں ہندوستان کی جانب سے کیا گیا آپریشن کیکٹس یاد بھی ہوگا ۔ یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان بھی 106 کلومیٹر طویل سرحد پائی جاتی ہے ، جہاں تک افغانستان ۔ ہندوستان تعلقات کا سوال ہے اس کی داخلی گڑبڑزدہ سیاست یا سیاسی حالات نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو کبھی سرد تو کبھی گرم رکھا ہے ۔ واضح رہے کہ چین کو چھوڑکر ہندوستان اور مذکورہ تمام ممالک علاقائی گروپ ساؤتھ ایشین اسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن ( سارک ) کے ارکان ہیں۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پڑوسی ملکوں کا ہندوستان کی پالیسیوں ، منصوبوں اور اسکیمات میں کیا مقام ہے ؟ آپ کو یاد ہوگا کہ آئی کے گجرال نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں مشرق کی جانب دیکھو پالیسی کا اعلان کیا تھا یعنی انھوں نے مشرقی ملکوں کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینے پر زور دیا تھا ۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ جب اٹل بہاری واجپائی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے تب انھوں نے ACT EAST پالیسی کا نعرہ دیا ۔ ان دونوں کے برعکس نریندر مودی نے بڑے پیمانہ پر حکومت کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پالیسی ’’پڑوسی ملک پہلے ‘‘ہے ۔ چنانچہ وزیراعظم نریندر مودی کی اس پالیسی اور پڑوسی ملکوں میں ان (وزیراعظم ) کے شخصی مفادات جاننے میں بے چین ہوگیا اور میں نے پوچھا کہ مودی جی نے سارک کے رکن ممالک ( ہر ملک ) کا دورہ آخری مرتبہ کب کیا تھا اور مجھے اپنے اس سوال کا جواب PM INDIA ویب سائیٹ پر مل گیا ، جس سے مجھے پتہ چلا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے مارچ 2024 ء میں بھوٹان ، مئی 2022 ء میں نیپال ، مارچ 2021 ء میں بنگلہ دیش ، جون 2019 ء میں مالدیپ، جون 2019 ء میں سری لنکا ، جون 2016 ء میں افغانستان اور ڈسمبر 2015 ء کے دوران پاکستان کا آخری مرتبہ دورہ کیا تھا ۔ میں نے یہ بھی پایا کہ پچھلے 10 برسوں میں وزیراعظم نے نیپال کا 5 مرتبہ ، بھوٹان کا تین مرتبہ اور سری لنکا کا تین مرتبہ دورہ کیا جبکہ بنگلہ دیش ، مالدیپ ، افغانستان کا دو دو مرتبہ اور پاکستان کا ایک مرتبہ دورہ کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو مودی کی تینوں معیادوں میں کئے گئے 82 بیرونی دوروں میں یہ 18 دورے کافی اہمیت کے حامل رہے تھے ۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ مارچ 2024ء میں بھوٹان کے ایک روزہ دورہ کے سواء انھوں نے دو برسوں سے کسی اور پڑوسی ملک کا دورہ نہیں کیا ۔
آپ کو یہ بتادوں کہ 18 ویں سارک سربراہ اجلاس کا کھٹمنڈو ، نیپال میں نومبر 2014 ء میں انعقاد عمل میں آیا تھا اور 19 ویں سارک سربراہ اجلاس نومبر 2016 ء میں پاکستان کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والا تھا لیکن ہندوستان نے اس اجلاس کابائیکاٹ کیا جس کے ساتھ ہی دیگر 4 ملکوں نے ہندوستان کے نقشِ قدم پر چل کر اس کا بائیکاٹ کیا اور اس کے بعد سے کوئی بھی سارک سربراہ اجلاس منعقد نہیں ہوسکا ۔ سارک تنظیم کے بارے میں واجپائی دورِ حکومت میں وزیرخارجہ کے عہدہ پر فائز رہے جسونت سنگھ نے کہا تھا کہ SAARC ایک بالکل ناکام تنظیم ہے ۔ مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ ارادتاً اسی نتیجہ کو حتمی طورپر قبول کرلیا ہے ۔
اپنی معیاد کے دوران نریندر مودی نے سال 2015 ء اور جون 2018 ء کے درمیان چین کا 5 مرتبہ دورہ کیا جس کے بعد بھی تعلقات تلخ ہوئے ۔ انھوں نے دو مرتبہ مائنمار اور ایک مرتبہ ماریشس کا دورہ کیا ۔ چین نے مسٹر مودی کو برہم بھی کیا اور وہ بے بس ہے ۔ ایک طرح سے انھوں نے چین کو ہندوستان کی پالیسیاں dictate کروانے کی اجازت دی ۔ مثال کے طورپر Disengagement پر بات چیت کے معاملہ میں بھی چین ایجنڈہ طئے کرتا ہے اور پھرساری دنیا نے دیکھا کہ ختم نہ ہونے والے مذاکرات کے دور کے بعد بھی کوئی نتیجہ نظر نہیں آیا ۔ فوج کی موجودگی پر چین نے LAC پر اپنے سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ۔ اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ سڑکوں ، پلوں اور نئی بستیوں یا آبادیوں کی تعمیر کررہا ہے ۔ اگر ہم تجارت پر غور کریں گے تو پتہ چلتا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ جو 2013-14 میں 37 ارب ڈالرس تھا بڑھکر 2023-24 میں 85 ارب ڈالرس ہوگیا ۔ ماریشس ان لوگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ ہے جو وہاں پیسہ لانا چاہتے ہیں اور ہندوستان میں سرمایہ کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ مائنمار نے روہنگیائی پناہ گزینوں کو ہندوستان میں ڈھکیلا اور اب بھی ڈھکیل رہا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسی ملکوں کو نظرانداز کرنے کی ایک قیمت چکائی ہے ۔ ہمیں نیپال میں حکومت کی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں تھی اور کے پی شرما اولی کے دوبارہ وزیراعظم بننے کی بھی کوئی توقع نہیں تھی ۔ ہمیں اس بات کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش سے راہ فرار اختیار کرنی پڑے گی ۔ ہم مسٹر رانیل وکرما سنگھے سے رابطہ میں تھے لیکن الوزا دسا نائیکے کے ساتھ بہت کم ربط میں رہے ۔ الورا دسا نائیکے کو اب 42.3 فیصد ووٹوں کے ساتھ صدر سری لنکا منتخب کیا گیا ۔ اب چلتے ہیں مالدیپ ، صدر مالدیپ منتخب ہونے کے ساتھ ہی مسٹر محمد معیزو نے پہلا جو کام کیا وہ ہندوستانی فوجی مشیران کی ایک قلیل تعداد کا وہاں سے تخلیہ کروانا تھا ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے مجھے شبہ ہے کہ مودی حکومت داخلی سیاسی حساب کتاب اور حالات کے لحاظ سے اپنائی ہے ۔