چراغ دے کے اجالا سمیٹ لیتا ہے

   

پارلیمنٹ مانسون سیشن… کیا مودی کا ریٹائرمنٹ قریب ہے؟
اذان مراٹھی میں … بابر اور اورنگ زیب پھر نشانہ

رشیدالدین
نریندر مودی کے لئے اسٹیج سجایا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کا 21 جولائی سے آغاز ہوگا جو 21 اگست تک جاری رہے گا ۔ پارلیمنٹ دراصل عوامی مسائل پر مباحث کا پلیٹ فارم ہے لیکن گزشتہ 11 برسوں میں بی جے پی نے اس دستوری ادارہ کو نریندر مودی کے ایکٹنگ اسٹیج میں تبدیل کردیا ہے ۔ نریندر مودی نے گزشتہ 11 برسوں میں میڈیا کے سوالات کا سامنا نہیں کیا بلکہ پارلیمنٹ اور انتخابی ریالیوں کی تقاریر کے ذریعہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی۔ پارلیمنٹ میں نریندر مودی اپوزیشن کے سوالات کا سامنا نہیں کرتے بلکہ ہر اجلاس میں ایک یا دو تقاریر کے ذریعہ جملہ بازی کا کامیاب مظاہرہ کرتے رہے۔ مودی تو محض ایک اداکار ہیں، درپردہ ڈائیلاگ رائٹر ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ مودی نے من کی بات ، انتخابی جلسوں اور ریالیوں کے ذریعہ ہی عوام کو اچھے دن اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا خواب دکھایا۔ ہر سال دو کروڑ روزگار اور کالے دھن کی واپسی کے ذریعہ ہر شخص کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ جمع کرنے کی بات کرتے ہوئے ہتیلی میں جنت دکھائی گئی۔ پہلگام دہشت گرد حملہ ہوا جس کے بعد پاکستان سے جنگ چھڑگئی، پھر اچانک سیز فائر کا اعلان کردیا گیا ۔ ملک میں جنگ کی صورتحال کے باوجود نریندر مودی نے اپوزیشن کے ساتھ اجلاس منعقد نہیں کیا اور نہ ہی پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ جنگ شروع کیوں ہوئی اور اچانک ختم کیسے ہوگئی؟ سیز فائر کیلئے درپردہ کیا معاہدات کئے گئے، اس بارے میں ملک جاننا چاہتا ہے۔ پارلیمنٹ کا مانسون سیشن کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز ثابت ہوگا۔ پہلگام حملہ کے ذمہ دار دہشت گردوں کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ پاکستان کے ساتھ جنگ میں فوج کے نقصانات کیا ہوئے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اشارہ پر اچانک سیز فائر کا اعلان کیوں کیا گیا جبکہ پاک مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کا بہترین موقع تھا۔ تجارت کا لالی پاپ دکھاکر ٹرمپ نے جس طرح سیز فائر کیلئے راضی کیا ، اس سے ہندوستان کا وقار عالمی سطح پر مجروح ہوا ہے۔ ٹرمپ نے 15 سے زائد مرتبہ سیز فائر کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی لیکن نریندر مودی زبان بندی پر قائم ہیں جیسے کہ ان کا مون ورت ہے۔ پہلگام سے لے کر آپریشن سندور تک کے کئی سوالات کا پارلیمنٹ میں حکومت کو جواب دینا ہوگا۔ بہار میں فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کے نام پر ’’ووٹ بندی‘‘ کی گونج پارلیمنٹ میں سنائی دے گی۔ راہول گاندھی کی قیادت میں انڈیا الائنس کے جارحانہ تیور مودی حکومت پر بھاری پڑسکتے ہیں۔ کیا ٹرمپ کے خلاف مودی زبان کھولیں گے یا پھر تجارتی ڈیل کو بچانے کیلئے ہمیشہ کی طرح خاموشی میں نجات تصور کریں گے۔ پارلیمنٹ سیشن سے عین قبل آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ملک کو خوشخبری سنائی ہے۔ بھاگوت نے کہا کہ 75 سال ہوتے ہی عوامی زندگی سے ریٹائرمنٹ لینا چاہئے اور دوسروں کو موقع دیا جائے۔ موہن بھاگوت نے اگرچہ کسی کا نام نہیں لیا لیکن ان کے اس بیان کے بعد بی جے پی حلقوں میں ہلچل دیکھی جارہی ہے ۔ کئی سینئر بی جے پی قائدین نریندر مودی کی ستمبر میں سبکدوشی کے منتظر ہیں۔ مبصرین کے مطابق موہن بھاگوت نے نریندر مودی کو 75 سال کی شرط یاد دلائی ہے جس کے تحت بی جے پی کے کئی سرکردہ قائدین کو سبکدوش کردیا گیا۔ موہن بھاگوت کے بیان کے بعد قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ مودی ستمبر میں سبکدوش ہوجائیں گے اور بی جے پی نے ان کے جانشین کی تلاش شروع کردی ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو مانسون سیشن وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کا آخری سیشن ہوگا۔ کیا 75 سال کی شرط مودی پر لاگو نہیں ہوگی ؟ موہن بھاگوت کا بیان ایک مشورہ تھا یا پھر آر ایس ایس کی جانب سے بی جے پی کو ڈائرکشن ۔ نریندر مودی نے 75 سال کی شرط پر خود اپنے سیاسی گرو ایل کے اڈوانی کو عملی سیاست سے سبکدوش کردیا تھا۔ بی جے پی کو دو ارکان سے اقتدار تک پہنچانے والے قائدین کو مودی نے گھر کا راستہ دکھادیا ۔ اڈوانی کے علاوہ مرلی منوہر جوشی ، جسونت سنگھ اور سمترا مہاجن کو عملی سیاست سے سبکدوش کیا گیا۔ آر ایس ایس ، سنگھ پریوار یا بی جے پی میں کس میں ہمت ہے جو مودی سے کہہ سکیں کہ 75 سال ہوگئے ، آپ آرام کیجئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موہن بھاگوت 11 ستمبر اور نریندر مودی 17 ستمبر کو 75 برس کے ہوجائیں گے ۔ کیا بھاگوت آر ایس ایس کے سرسنچالک کے عہدہ سے سبکدوش ہوں گے ؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر نریندر مودی پر بھی دباؤ یقیناً بڑھ جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی میں نریندر مودی کے مخالفین نہیں ہیں۔ انہیں تو بس موقع اور وقت کا انتظار ہے۔ دو میعادوں کی تکمیل کے بعد مودی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گھٹنے لگا ہے ۔ عوام کو 17 ستمبر کا بے چینی سے انتظار ہے تاکہ ملک کے اچھے دن مودی سے نجات کے ذریعہ شروع ہوں۔ ریلوے پلیٹ فارم سے چیف منسٹر گجرات اور پھر وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والے نریندر مودی اتنی آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ مودی کی برقراری کیلئے کچھ نہ کچھ راستہ تلاش کرلیا جائے ۔
ملک میں وقفہ وقفہ سے نفرت اور شرانگیزی کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔ مہاراشٹرا کے وزیر نتیش رانے نے اذان کو مراٹھی زبان میں دینے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ مراٹھی کے غلبہ کو ثابت کیا جاسکے۔ مہاراشٹرا میں ان دنوں مراٹھی کو دوسری زبانوں پر مسلط کرنے کی مہم جاری ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اذان پر پابندی اور پھر سڑکوں پر نماز پر اعتراض کے بعد اب عربی زبان میں اذان بھی برداشت نہیں ہے ۔ یہ وہی نتیش رانے ہیں جنہوں نے سابق میں تبلیغی جماعت کے اجتماعات کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرقہ وارانہ ہم اہنگی کیلئے یہ ضروری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان پر زعفرانی رنگ کا غلبہ کچھ اس طرح چھاگیا کہ انہوں نے اذان مراٹھی زبان میں دینے کا مطالبہ کردیا ۔ نتیش رانے نے شائد کبھی اذان کو غور سے سنا نہیں ہوگا۔ اگر کسی خوش الحان مؤذن کی زبان سے وہ اذان سنتے تو یقیناً ان کا دل بھی بدل جاتا۔ اگر بالفرض مراٹھی میں اذان کا آغاز ہوجائے اور اذان کے الفاظ سے متاثر ہوکر لوگ اسلام کے دامن میں آنے لگیں تو پھر اس وقت کیا ہوگا۔ عربی سے ناواقفیت کے سبب دیگر ابنائے وطن پر کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر نتیش رانے کی تجویز پر عمل کیا گیا تو بہت جلد تبدیلی مذہب پر پابندی کا قانون نافذ کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف تعلیمی نصاب کو زعفرانی بنانے کیلئے مرکزی حکومت نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ نئی نسل اور خاص طور پر طلبہ کو مسلم حکمرانوں کے بارے میں گمراہ کن تاریخ پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ NCERT کے نصابی کتب میں مغل حکمرانوں ، کی مذمت اور شیواجی کی ستائش کی گئی ہے۔ مغل حکمرانوں میں بھی بابر اور اورنگ زیب کے خلاف مواد نصابی کتاب میں شامل کرتے ہوئے انہیں ظالم ، جابر ، اور مخالف ہندو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بابر سے نفرت شائد بابری مسجد کے سبب ہے جسے عدلیہ کی مدد سے رام مندر میں تبدیل کردیا گیا ۔ مغل حکمراں چاہئے بابر ، اکبر اور اورنگ زیب کیوں نہ ہوں ان کی حکومت میں غیر مسلم اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ مغل حکمرانوں نے مذہبی رواداری کی جو مثال قائم کی ہے ، اسے نصابی کتب میں تبدیلی کے ذریعہ مٹایا نہیں جاسکتا ۔ اورنگ زیب اور شیواجی کے مقابلہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ یہ محض دو حکمرانوں کی جنگ تھی ۔ شیواجی کی فوج میں مسلمان اہم عہدوں پر فائز تھے۔ مسلم حکمرانوں اور خاص طور پر مغل بادشاہوں نے ہندو مندروں کو جاگیرات اور دولت سے مالا مال کردیا تھا ۔ نفرت کے یہ سوداگر کیا اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہندوستان میں جو کچھ بھی تاریخی اور آثار قدیمہ کی یادگار عمارتیں ہیں ، وہ مسلم حکمرانوں کی دین ہیں۔ ہندوستان کو سیاحوں کی آمد سے جو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہ مسلم حکمرانوں کی یادگاروں سے ہے۔ دنیا بھر سے سیاح ہندوستان کو تاج محل دیکھنے کیلئے آتے ہیں اور فرقہ پرست عناصر کی تاج محل پر بھی بری نظریں ہیں۔ سیاح اجنتا ایلورا نہیں بلکہ تاج محل ، لال قلعہ ، قطب مینار ، چارمینار جیسی یادگاروں کو دیکھنے کیلئے ہندوستان کا رخ کرتے ہیں ۔ اگر یہ تاریخی عمارتیں نہ ہوتیں تو ہندوستان میں سیاحوں کے لئے پرکشش کوئی بھی عمارت نہ ہوتی ۔ ملک پر مسلم حکمرانوں کے احسانات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی 15 اگست اور 26 جنوری کو قومی پرچم مسلمانوں کی یادگار لال قلعہ پر لہرایا جاتا ہے ۔ نریندر مودی نے 11 برسوں تک لال قلعہ سے قوم کو خطاب کیا۔ اگر مسلم یادگاروں سے اتنی نفرت ہے تو پھر لال قلعہ کی بجائے کسی اور مقام کا تعین کر کے دکھائیں۔ بیرونی مہمانوں کا نئی دہلی میں استقبال حیدرآباد ہاؤز میں کیا جاتا ہے جو نظام دکن کی یادگار ہے، جن کے خلاف دن رات بی جے پی اور سنگھ پریوار زہر اگلتا ہے لیکن بیرونی مہمانوں کو دکھانے کیلئے حیدرآباد ہاؤز سے بہتر کوئی اور عالیشان عمارت دہلی میں موجود نہیں۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
غرور کرتی ہیں قومیں تو روشنی کا خدا
چراغ دے کے اجالا سمیٹ لیتا ہے