چناؤ سے قبل کرپشن کیخلاف مہم سے مودی حکومت مشکوک

   

برکھا دت
عام انتخابات 2019 کے تعلق سے کثیر غیریقینی باتوں میں ایک حقیقت ہے جس پر ہم تمام اتفاق کرسکتے ہیں: یہ کسی لہر کا الیکشن ہونے والا نہیں ہے۔ نہ تو وزیراعظم نریندر مودی کیلئے تائید کا کوئی تلاطم ہے اور نا ہی اُن کے خلاف کسی قسم کا عام غصہ (اُس نوعیت کا جسے کانگریس کو 2014ء میں سامنا تھا)۔ تاہم، بنیادی سطح پر معاشی مسائل بالخصوص نوکریوں کا بحران اور زرعی پریشانی کے باعث اس حکومت سے واضح ناراضگی اور اندر ہی اندر غصہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی (عبوری بجٹ میں بہبودی اسکیمات کے ذریعے مداوا کرنے کے علاوہ) دیگر شہ سرخیوں کو تلاش کرنا ہے تاکہ مایوس کن معاشی صورتحال سے متعلق باتوں سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ ہندوتوا اس طرح کی ایک انتخابی سرخی ہے اور کرپشن ظاہر ہے دیگر۔
مغربی بنگال میں ایک چٹ فنڈ اسکام کے تعلق سے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کا دھاوا اور غیرقانونی رقمی لین کے الزامات پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے رابرٹ وڈرا سے پوچھ تاچھ دونوں ہی کارروائیاں عام باتوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی نے بالکلیہ غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ شردھا چٹ فنڈ کیس میں سی بی آئی یہ دلیل پیش کرنے میں تکنیکی طور پر درست ہے کہ اس کی تحقیقات کو سپریم کورٹ کا خط اعتماد حاصل ہے اور اسی لئے اس کے عہدیداروں کو کوئی وارنٹ کی ضرورت نہیں پڑی جب وہ کولکاتا پولیس کمشنر راجیو کمار سے پوچھ گچھ کیلئے پہنچے۔ لیکن یہ دلیل میں راست بازی نہیں کیونکہ کورٹ آرڈر 2014ء میں جاری کیا گیا تھا۔ تقریباً دو سال تک تحقیقات میں رسمی پیش رفت تک نہیں ہوئی۔ اس درمیان ترنمول کانگریس سے چند بڑے نام اُبھر آئے جیسے مکل رائے جنھیں اسکام سے جوڑا گیا تھا، وہ انحراف کرتے ہوئے بی جے پی میں چلے گئے اور یکایک کرپشن کے الزامات سے بری ہوگئے۔ جب کیس کی فائلیں جو دھول میں پڑی تھیں، یکایک باہر نکالی گئیں، تو بی جے پی کی صاف گوئی بے نقاب ہوگئی۔ ہاں، یہ نامناسب ہے کہ ممتا بنرجی کے دھرنا میں برسرکار پولیس عہدے دار شامل ہوجائیں۔ لیکن اگر بنگال پولیس کو سیاسی رنگ دینے کا مورد الزام ٹہرایا جاسکتا ہے تو ایسا ہی سی بی آئی کے ساتھ بھی ضرور ہونا چاہئے جو بی جے پی کیلئے سیاسی داؤ پیچ دکھانے کا آلہ کار بن گیا۔ صفر کے مجموعہ والے اس کھیل میں بی جے پی کیلئے کوئی معتبر کیس بنانا مشکل ہے۔
یہی غلطی رابرٹ وڈرا کے معاملے میں کی گئی ہے۔ 2014ء کی مہم میں خود نریندر مودی نے گاندھی فیملی اور پرینکا گاندھی وڈرا کے بزنسمین شوہر کا مذاق اڑایا تھا۔ ’’داماد جی‘‘ کا طنز کانگریس کے خلاف پسندیدہ حربہ بن چکا تھا۔ اُس وقت ممکنہ طور پر وڈرا کیلئے بہت کم عوامی ہمدردی تھی۔ اگر تحقیقاتی اداروں نے مودی حکومت کے ابتدائی برسوں میں اُن سے پوچھ تاچھ کی ہوتی تو سیاسی اثر شاید کہیں زیادہ طاقتور ہوتا۔ ہریانہ اور راجستھان دونوں ریاستوں میں وڈرا پر متنازعہ اراضی معاملتیں طے کرنے کا الزام ہے لیکن وہاں بی جے پی ہی برسراقتدار تھی۔ پھر بھی کئی برسوں کی مہلت کے باوجود کسی بھی ریاست نے وڈرا کے خلاف کوئی ٹھوس کیس نہیں بنایا۔ آرمس ڈیلر سنجے بھنڈاری کے ساتھ روابط کا موجودہ تنازعہ اور لندن میں بے نامی جائیداد کا الزام بھی زائد از دو سال سے عوام میں ہے۔ سارے ٹیلی ویژن نٹ ورکس میں جرنلسٹوں نے یہ معاملہ 2016ء میں آشکار کیا۔ لہٰذا، اگر کوئی ٹھوس کیس بنانے کیلئے واقعی معقول ثبوت تھا، تو اس تمام عرصے میں بی جے پی حکومت اور متعلقہ ایجنسیاں کیا کرتے رہے؟
جس طرح یہ تبدیلیاں ہوئی ہیں، ان سے اکثر لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ وڈرا سے پوچھ گچھ پرینگا گاندھی کے انتخابی سیاست میں داخلے سے جڑی ہے۔ پارٹی کی نئی جنرل سکریٹری انچارج مشرقی یو پی نے بھی جرأت مندانہ سیاسی پیام دیتے ہوئے اپنے شوہر کو ای ڈی آفس تک چھوڑا اور پھر وہاں سے پارٹی ہیڈکوارٹرز پہنچ کر ذمہ داری سنبھالی۔ پرینکا کا پیام واضح ہے: نہ وہ اور نا ہی کانگریس اس مسئلہ سے راست طور پر نمٹنے سے کترائیں گے۔ یہ مودی حکومت کیلئے لگ بھگ چیلنج ہے۔ جو کچھ پرینکا نے میڈیا سے کہا کہ وہ اپنے شوہر اور اپنی فیملی کے ساتھ کھڑی ہوگی، اُن کی جگہ کروڑوں ہندوستانی ٹھیک ایسا ہی کچھ کہتے۔ وڈرا کے خلاف اسی ہفتے کارروائی شروع کرنا جب کہ پرینکا گاندھی نے باضابطہ اپنا نیا سیاسی رول اپنایا، بی جے پی نے فاش غلطی کی ہے۔ نہ صرف اُن کے مقاصد مشکوک معلوم ہوتے ہیں، وہ کچھ حد تک خوف کو ظاہر کررہے ہیں۔ان کیسوں کے محاسن کو دیکھے بغیر جو سی بی آئی یا ای ڈی مختلف اپوزیشن قائدین کے خلاف تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ حقیقت کہ سب کچھ انتخابی ضابطہ اخلاق لاگو ہونے سے ایک ماہ قبل ہورہا ہے، بی جے پی کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ دائیں بازو کے کئی حامی حیرت زدہ ہیں کہ کیوں حکومت ان تمام برسوں میں ان کیسوں پر مفلوج رہی؟ اپنی میعاد کے اختتامی مرحلے میں کارروائی کرنا دانشمندانہ سیاست نہیں ہوتی۔ اس نے شاید اپوزیشن کو فائدہ پہنچا دیا ہے۔