بنگلور و میں ترکاری فروش کو 29 لاکھ کی نوٹس، کرناٹک کے تاجرین نے آن لائین رقومات کی وصولی ترک کردی، ڈھائی لاکھ سے زائد آمدنی پر انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنا ہوگا
حیدرآباد ۔ 23 ۔ جولائی (سیاست نیوز) تجارتی سرگرمیوں میں یو پی آئی (UPI) پیمنٹ یعنی آن لائین رقومات کی ادائیگی کے رجحان میں اضافہ ہوچکا ہے۔ چھوٹے اور متوسط تاجروں کی جانب سے زیادہ تر رقومات کی وصولی یو پی آئی سسٹم سے عمل میں آرہی ہے۔ ترکاری ، فروٹس اور غذائی اشیاء کے سڑکوں پر موجود اسٹال میں ادائیگی کا طریقہ کار آن لائین ہوچکا ہے اور یہ طریقہ کار نہ صرف عوام بلکہ تاجرین کے لئے سہولت کا باعث بن چکا ہے۔ یو پی آئی ادائیگی سسٹم ممکن ہے کہ مستقبل میں تاجروں کے لئے الجھن کا باعث بن جائے کیونکہ بنگلور کے تاجروں کے تجربہ کی روشنی میں جی ایس ٹی حکام کی نظر یو پی آئی ادائیگیوں پر ہے اور مقررہ حد سے تجاوز پر جی ایس ٹی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلور میں ایک ترکاری فروش کو 29 لاکھ ادائیگی کیلئے جی ایس ٹی نوٹس موصول ہوئی ہے۔ ترکاری فروش تاجر کو جی ایس ٹی نوٹس کا معاملہ جیسے ہی منظر عام پر آیا بنگلور میں چھوٹے اور اوسط تاجرین نے آن لائین ادائیگی کو ترک کرتے ہوئے نقد وصولی کا آغاز کیا ہے۔ اس سلسلہ میں سوشیل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئے جس میں تاجرین کو یو پی آئی پیمنٹ سے متعلق اسکیانر (Scanner) کو نکالتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق بنگلور کے تاجرین میں جی ایس ٹی نوٹس کے متعلق خوف کا ماحول ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک کے دیگر شہروں بشمول حیدرآباد میں بھی چھوٹے اور اوسط تاجرین کو جی ایس ٹی حکام سے نوٹس موصول ہوسکتی ہے۔ یو پی آئی ادائیگی کا نظم کس حد تک محفوظ اور جی ایس ٹی سے مستثنیٰ رہے گا ، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا ۔ اطلاعات کے مطابق کرناٹک کے حاویری علاقہ سے تعلق رکھنے والے ترکاری فروش شنکر گوڑہ کو میونسپل ہائی اسکول گراؤنڈ کے قریب گزشتہ چار برسوں سے ایک چھوٹی دکان چلاتے ہیں، جہاں ترکاری فروخت کی جاتی ہے ۔ شنکر گوڑہ زیادہ تر رقومات کی وصولی یو پی آئی سسٹم اور دیگر ڈیجیٹل وائیلیٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ جی ایس ٹی عہدیداروں کے مطابق ان کی گزشتہ چار برسوں میں ڈیجیٹل معاملت 1.63 کروڑ تک پہنچ چکی ہے جس کیلئے انہیں 29 لاکھ روپئے جی ایس ٹی ادائیگی کی نوٹس جاری کی گئی۔ جی ایس ٹی کی نوٹس نے شنکر گوڑہ کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اور انہوں نے آن لائین رقومات کی وصولی کا طریقہ کار ختم کردیا ہے اور نقد رقومات وصول کر رہے ہیں۔ شنکر گوڑہ کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں سے ترکاری خرید کر اپنی دکان پر فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام زیادہ تر آن لائین ادائیگی میں سہولت محسوس کر رہے ہیں۔ شنکر گوڑہ کے مطابق وہ ہر سال پابندی سے آئی ٹی ریٹرنس داخل کرتے ہیں جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ جی ایس ٹی عہدیداروں نے 29 لاکھ روپئے بطور ٹیکس ادا کرنے کی نوٹس جاری کی ہے لیکن میں اس قدر بھاری رقم کی ادائیگی کے موقف میں نہیں ہوں۔ واضح رہے کہ ملک میں فریش اور پراسیس کے بغیر والی ترکاریوں کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور ان پر کوئی ٹیکس نہیں۔ یہ استثنیٰ فریش، چلڈ اور غیر پراسیس ترکاریوں کیلئے ہے۔ چاہے اسے کسان یا ریٹیلرس فروخت کرے جبکہ پراسیس کردہ ترکاریاں جن میں فروزن ، محفوظ کردہ ، پیاک کردہ اور لیبل لگائی ہوئی ترکاریوں پر 5 فیصد جی ایس ٹی کا اطلاق ہوتا ہے۔ چھوٹے تاجرین کیلئے لازمی ہے کہ اگر ان کی سالانہ آمدنی 2.5 لاکھ روپئے سے تجاوز کرچکی ہے تو انہیں انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنا ہوگا۔ مالیاتی سال 2024-25 کے لئے انکم ٹیکس ریٹرن کے ادخال کی آخری تاریخ 15 ستمبر ہے جسے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے پورٹل پر آن لائین داخل کیا جاسکتا ہے۔ بنگلور کے چھوٹے تاجروں کو جی ایس ٹی کی ادائیگی کے سلسلہ میں جو تلخ تجربہ ہوا ہے، اس کے پیش نظر حیدرآباد اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجرین کو بھی آن لائین رقومات کی وصولی کے سلسلہ میں احتیاط کرنی چاہئے یا پھر وہ اپنے آمدنی کا مکمل حساب رکھیں۔ فروٹس اور ترکاری کے چھوٹے تاجرین کے لئے ایک سال میں ڈھائی لاکھ روپئے کی آمدنی کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے ایسے تاجرین کو اپنا حساب رکھنا چاہئے ۔1