یونس وائی لسانیہ
چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما نے 9 جنوری کو ورنگل میں منعقدہ ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مجلس اتحادالمسلمین اسدالدین اویسی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اویسی کی وراثت اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح نظام (آصف جاہی حکمرانوں) اور مغلوں کی وراثت ختم ہوئی۔ اے آئی ایم آئی ایم اور اس کے صدر پر تنقید سیاسی کھیل کا ایک حصہ ہے اور یہ معمول کی بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت اور قائدین ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ حیدرآباد سے نظام کی یادوں اور وراثت کو ختم کردیا جائے گا، مضحکہ خیز بات ہے۔ چیف منسٹر آسام کو شاید اس بات کا پتہ نہیں کہ آصف جاہی حکمرانی نے 1724ء تا 1948ء حیدرآباد دکن میں پوری شان و شوکت کے ساتھ حکمرانی کی اور جدید حیدرآباد کی تعمیر عمل میں لائی اور اسے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ شہروں میں شامل کیا۔ حیدرآباد دکن کے آصف جاہی حکمران بالخصوص آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے حیدرآباد میں ایسے کارنامے انجام دیئے جو ہندوستان کی کسی دیسی ریاست میں نہیں دیکھے گئے۔ مثال کے طور پر ریلویز، عثمانیہ یونیورسٹی، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل، عثمان ساگر، حمایت ساگر، حیدرآباد ہائیکورٹ وغیرہ شامل ہیں۔
ریلویز
جہاں تک کسی بھی جدید شہر کی اہم ترین سہولتوں کا سوال ہے، پبلک ٹرانسپورٹ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور ہندوستان میں تو ریلوے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر متوسط اور غریب طبقات کیلئے یہ کسی نعمت سے کم نہیں چنانچہ حیدرآباد جس کے سابق حکمرانوں کے بارے میں چیف منسٹر آسام نے مضحکہ خیز باتیں کی ہیں، انہیں حکمرانوں نے حیدرآباد میں نظام ششم محبوب علی پاشاہ کے دور اقتدار کے دوران 1870ء میں پہلا ریلوے اسٹیشن قائم کیا۔ واضح رہے کہ محبوب علی پاشاہ کی ولادت 1869ء میں ہوئی اور 1911ء میں انہوں نے وفات پائی۔ اس دور میں ہندوستان کی کسی دیسی ریاست میں ریلویز کا تصور تک نہیں تھا۔
عثمانیہ یونیورسٹی
آصف جاہی حکمرانوں نے حیدرآباد اور اس کی ترقی میں جو اہم کردار ادا کیا، ان میں اہم نام میر عثمان علی خاں بہادر کا ہے۔ جنہوں نے حیدرآباد دکن میں 1911ء تا 1948ء حکومت کی۔ ساتویں نظام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے اپنی مملکت میں تعلیمی شعبہ کو مستحکم کیا، علم کی روشنی پھیلائی، امیر اور غریب کے درمیان امتیاز نہیں برتا، ہندو مسلم اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو تعلیمی مواقع فراہم کئے اور عثمانیہ یونیورسٹی کی شکل میں قوم کو ایک غیرمعمولی تحفہ دیا۔ ملک کی آزادی کے بعد بھی اس یونیورسٹی سے غیرمعمولی شخصیتوں نے تعلیم حاصل کی۔ 1917ء میں نواب عثمان علی خاں بہادر کی جانب سے ایک فرمان جاری کئے جانے کے بعد ہی عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ابتداء میں یہ یونیورسٹی کسی اور مقام پر کام کرتی رہی۔ آج آپ یونیورسٹی کیمپس میں آرٹس کالج کی جو عظیم الشان عمارت دیکھ رہے ہیں اور جس سے یونیورسٹی کی پہچان ہے، ساتویں نظام نے 1939ء میں اس کی تعمیر عمل میں لائی۔ اس کیلئے ریاست حیدرآباد کی حکومت نے بہتر سے بہتر ڈیزائن کیلئے کافی دوڑ دھوپ کی اور پھر بیلجیم کے ایک آرکیٹیکٹ مانسیور جیاسپر کی خدمات حاصل کی گئی جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کی آرٹس کالج کا ڈیزائن تیار کیا۔ آرٹس کالج کو یونیورسٹی کا چہرہ سمجھا جاتا ہے۔
عثمانیہ دواخانہ
حکمرانی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور ان اہم پہلوؤں میں صحت عامہ کا پہلو کافی اہمیت رکھتا ہے اور حیدرآباد دکن کے آخری نظام عثمان علی خاں بہادر نے اس پر نہ صرف خصوصی توجہ دی بلکہ صحت عامہ کے شعبہ میں بنیادی سہولتوں کی تعمیر بھی عمل میں لائی چنانچہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اور یونانی ہاسپٹل (1929) دونوں انہیں کے دور میں اور ایک ہی وقت میں تعمیر کئے گئے جو آج بھی عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ دراصل عثمانیہ جنرل ہاسپٹل شہر کے اہم ترین صحت عامہ کے مراکز میں سب سے بڑا مرکز ہے جہاں بے شمار غریب آج بھی علاج کیلئے رجوع ہوتے ہیں اور ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
عثمان ساگر اور حمایت ساگر
یہ آبی ذخائر حیدرآباد کو سیلاب سے بچانے کیلئے تعمیر کئے گئے۔ واضح رہے کہ 1908ء میں حیدرآباد کی تاریخ کی بدترین طغیانی نے شہر کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ طغیانی کا جہاں تک سوال ہے، شہر کی تاریخ کی بدترین آفات سماوی کے طور پر ریکارڈ کی گئی رودِ موسیٰ میں نہ صرف 50 ہزار مکانات تباہ ہوئے بلکہ یہ طغیانی 15 ہزار سے زائد لوگوں کی اموات کا سبب بھی بنی۔ یہ طغیانی نظام ششم محبوب علی پاشاہ کی حکومت کے دوران آئی تھی۔ آج اگر کہیں بھی شہر میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوتی ہے تو اسے شدید بارش سمجھا جاتا ہے لیکن 1908ء میں جو بارش ریکارڈ کی گئی، وہ 19 اِنچ ریکارڈ کی گئی تھی۔ 29 ستمبر 1908ء کو طغیانی نے شہر کی حالت بدل دی جس کے بعد محبوب علی پاشاہ نے ہندوستان کے مشہور و معروف انجینئر ایم وشویشوریا کو طلب کیا تاکہ حیدرآباد کو سیلاب سے بچانے کیلئے کی جانے والے اقدامات کے بارے میں مشورہ دیں۔ وشویشوریا نے عملاً ریاست حیدرآباد کی حکومت کے اسپیشل کنسلٹنگ انجینئر کے طور پر خدمات انجام دینے شروع کی لیکن نظام ششم نواب محبوب علی خاں بہادر کا 1911ء میں انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹوں میں سے ایک آخری نظام عثمان علی خاں بہادر نے حکومت سنبھالی۔ انہوں نے حیدرآباد کو عصری بنانے اور طغیانی سے محفوظ حیدرآباد کے لئے شہر کے انفراسٹرکچر پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ ویسے بھی 1591ء میں جب محمد قلی قطب شاہ نے نے حیدرآباد قائم کیا تھا، تب سے ہی شہر طغیانی اور سیلابوں سے متاثر تھا جس کے نتیجہ میں انہوں نے شہر کے اطراف و اکناف پانی جمع کرنے کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر کا مشورہ دیا تاکہ سیلاب کا پانی مختلف آبی ذخائر میں تقسیم ہوجائے۔ وشویشوریا نے دوڈیمس کی تعمیر کا جو مشورہ دیا تھا ،دراصل وہ عثمان ساگر اور حمایت ساگر کی تعمیر کا مشورہ تھا۔ عثمان ساگر یا گنڈی پیٹ کی تعمیر کا آغاز 1913ء میں شروع ہوا اور 1918ء میں مکمل ہوا۔ اس دور میں عثمان ساگر کی تعمیر پر 58 لاکھ 40 ہزار روپئے کے مصارف آئے۔ اسی طرح حمایت ساگر کی تعمیر 1921ء میں شروع ہوئی اور 1926ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ حمایت ساگر کی تعمیر پر اس دور کے 91 لاکھ 70 ہزار روپئے کے مصارف آئے۔
حیدرآباد ہائیکورٹ (اب تلنگانہ )
دوسری جدید یا عصری عمارتوں کی طرح آخری نظام میر عثمان علی خاں بہادر کے دور حکومت میں ہائیکورٹ کی عمارت بھی تعمیر کی گئی۔ اس کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا اور اس وقت 6 ججس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ 1956ء میں جب ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی، اس کے بعد ان ججس کی تعداد کو 6 سے بڑھاکر 12 کردیا گیا۔ ہائیکورٹ کا ڈیزائن عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اور یونانی ہاسپٹل کی طرح یوروپین آرکیٹیکٹ وِنسینٹ ایش نے تیار کیا ۔ یہ تاریخی آثار حیدرآباد میں بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہند اسلامی فن تعمیر کے بے مثال نمونے ہیں۔ اگر ہم سیاست سے بالاتر ہوکر ریاست حیدرآباد کی جاگیردارانہ ساخت یا طبقہ واری ساخت (ملک کی تمام دیسی ریاستوں میں یہ ساخت ایک طرح کی ہی تھی) کو دیکھتے ہی تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آصف جاہی حکمرانوں نے حیدرآباد کو خوب سجایا سنوارا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین ان مقامات پر جانا روک دیں گے جن کی تعمیر آصف جاہی سلطنت میں ہوئی ہے یا پھر بی جے پی قائدین یہ سوچتے ہیں کہ وہ ان سے بھی شاندار تعمیرات کرسکتے ہیں؟ ہر چیز مندر ۔مسجد کا مسئلہ نہیں ہوتی بلکہ شہروں کو ایک ویژن کی ضرورت ہوتی ہے، فرقہ وارانہ ایجنڈوں کی نہیں۔ مسٹر سرما حیدرآباد سے آصف جاہی حکمرانوں اور ان کی یادوں کو ،ان کے ورثے کو ختم کرنے کی بات کررہے ہیں ، وہ ایسا اسی وقت کرسکتے ہیں جب آصف جاہی حکمرانوں سے بہتر کرکے دکھائیں۔ حیدرآبادی حکمرانوں نے اس کی 430 سالہ تاریخ میں بے شمار ترقیاتی پراجیکٹس پر کام کیا اور وہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ اس ورثے کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے ختم کردیا جائے گا ، ایسے الفاظ کا استعمال دراصل ہمارے روشن ماضی کی بدخدمتی ہوگی۔ آپ کو بتا دیں کہ شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد 1591ء میں قطب شاہی سلطنت کے پانچویں حکمران محمد قلی قطب شاہ نے قائم کیا تھا۔ قطب شاہی سلطنت 1518ء سے لے کر 1687ء تک قائم رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغل (1526ء تا 1857) کے بارے میں مسلم حکمرانی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے لیکن بنیادی طور پر وہ گولکنڈہ سلطنت یا قطب شاہی سلطنت کے دشمن تھے۔ 1687ء میں جب اورنگ زیب نے گولکنڈہ فتح کیا تب قطب شاہی سلطنت عملاً ختم اور حیدرآباد تباہ ہوگیا تھا۔ جس کے بعد نظام یا آصف جاہی جو کبھی مغلوں کے گورنر ہوا کرتے تھے، حیدرآباد کا اقتدار سنبھالا۔