کیتھرین شائر
سعودی عرب اور چین کے درمیان بڑھتے تعلقات پھر ایک مرتبہ عالمی سطح پر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ عالمی میڈیا بھی ان تعلقات کو کافی اہمیت دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کو لے کر امریکہ بھی پریشان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس۔ یوکرین جنگ نے پھر سے عالمی برادری کو کئی گروپس میں تقسیم کردیا ہے۔ ویسے بھی ایک گروپ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کا ہے اور دوسرا گروپ روس اور اس کے حلیف ملکوں پر مشتمل ہے، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو امریکہ کے خلاف کوئی ملک عالمی سطح پر ابھر رہا ہے تو وہ ’’چین‘‘ ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران مشہور و معروف اخبار ’’وال اِسٹریٹ جرنل‘‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ چین کے صدر ژی جن پنگ ماہ مئی میں دورۂ سعودی عرب کی دعوت قبول کرسکتے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ چینی حکام اپنے صدر کے دورہ کی تیاریاں بھی شروع کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ چین کو اس کی اپنی کرنسی یعنی یوان (Yuan) میںتیل خریدنے کی اجازت دے گا۔ امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوان میں تیل فروخت کرنے کا اشارہ امریکہ کیلئے بہت بڑھا دھکا ہے کیونکہ سعودی عرب کو ہمیشہ امریکہ کا کٹر حلیف اور دوست سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی خبریں گشت کررہی ہیں کہ سعودی عرب، روس کی تائید کرسکتا ہے اور عالمی سطح پر یوان، امریکی ڈالر کیلئے بہت بڑا چیلنج بن کر اُبھر سکتا ہے۔ سعودی عرب نے چین کو اس کی اپنی کرنسی ’’یوان‘‘ میں تیل فروخت کرنے کی جو پیشکش کی ہے، اس سے عالمی سطح پر رقم کی ادائیگیوں کا ایک متوازی نظام پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں چین کی کرنسی یوان، امریکی ڈالر کی طرح اہم بن سکتی ہے۔ جہاں تک روس۔یوکرین جنگ کا سوال ہے، اس معاملے میں تاحال چین نے غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اس پر پوری طرح شبہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ روس کی تائید و حمایت کررہا ہے۔
کیا سعودی عرب حقیقت میں یوان کی شکل میں ادائیگیوں کی اجازت دے گا؟
سعودی قیادت نے چین کے ساتھ تیل کی تجارت یوان میں کرنے کا جو اعلان کیا ہے، ماہرین اسے اپنے مغربی اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے ایک حربے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی خارجی تعلقات سے متعلق یوروپی کونسل یا ECFR نے 2019ء میں اپنی پالیسی سے متعلق تفصیلات میں واضح طور پر لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں چین ایک بہت بڑا کھیل کھیل رہا ہے۔ سعودی عرب نے اس طرح کے اقدامات پہلے بھی کئے تھے جس سے مغربی دنیا پر دباؤ بڑھا تھا۔ ای سی ایف آر کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کو ہمیشہ Bargining Chip کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً ’’ان لوگوں نے لکھا‘‘ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے صرف چند ماہ بعد سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ایسا لگتا تھا کہ ایشیا کے اپنے دورہ کو اپنے ملک کیلئے ہتھیاروں کی خریدی سے متعلق امریکہ اور یوروپی ممالک میں جاری مباحث پر اثر ڈالنے کیلئے استعمال کیا۔
سعودی عرب پر دباؤ کا کیا؟
امریکہ اور یوروپ کی یہ کوششیں رہیں کہ سعودی عرب کی تائید حاصل کریں۔ امریکی سکیورٹی ایڈوائزر یا مشیر قومی سلامتی بریٹ میک گرگ نے پچھلے ہفتہ سعودی عرب کا دورہ کیا ، جیسا کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے دورہ کیا تھا۔ اب تک جو حالات ہیں ، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ امریکی اور یوروپی عہدیداروں نے سعودی عرب پر زیادہ سے زیادہ تیل نکالنے کیلئے جو دباؤ ڈالا تھا یا کوششیں کی تھیں، وہ کوششیں پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ امریکہ دراصل تیل کی قیمتوں کو کم سے کم کرنے یا مستحکم رکھنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلئے امریکی اور یوروپی ممالک زور دے رہے ہیں۔ سعودی عرب تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک میں واحد ملک ہے جو تیل سربراہ کرنے کے باوجود اضافی گنجائش رکھتا ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کا ماننا ہے کہ اگر عالمی مارکٹ میں تیل کی پیداوار زیادہ ہوگی تو پھر تیل کی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے جو فی الوقت روس جیسے ملک سے سربراہی میں خلل پڑنے کے نتیجہ میں قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا ہے۔ اگر مغربی سفارت کار ان ملکوں کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب بھی اُن (سعودی عہدیداروں ) کو اس بات کی فکر ہے کہ مشرق وسطیٰ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ یہ (خلیجی ممالک) سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کے پاس پیشکش کیلئے یا ڈرانے دھمکانے کیلئے پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ کچھ نہیں رہا۔ بیانکو نے پچھلے ہفتہ شائع اپنے مضمون میں یہ بھی انکشاف کیا کہ خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے روس کے خلاف امریکہ اور یوروپ کے ساتھ ہونے سے انکار دراصل روس کے بارے میں نہیں بلکہ ایک نئے ہمہ قطبی ورلڈ آرڈر کے بارے میں ہے اور اس نے ورلڈ آرڈر میں اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے یہ ممالک رقمی ادائیگیوں کا نیا طریقہ اپنا رہے ہیں۔
اس عمل میں چین کیسے شامل ہے؟
عالمی سطح پر بدلتے حالات میں چین اچانک منظر عام پر نہیں آتا بلکہ سعودی عرب اور چین کے درمیان کئی برسوں سے تعلقات گہرے ہوتے رہے ہیں۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ سال 2020ء میں سعودی عربعلاقہ میں چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت داری رہا اور دونوں کے درمیان درآمدات و برآمدات 67 ارب ڈالرس (60.6 ارب یورو) رہے اور یہ معاشی تعلقات سعودی ۔ چین دونوں کیلئے فائدہ بخش ہے۔
چین اور سعودی عرب کی تجارتی و اقتصادی شراکت داری سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچا ہے اور یہ تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چینی کے اپنے کھرب ڈالر مالیتی بیلٹ اینڈ روڈ پہل اور سعودی عرب کے اپنے ویژن 2030ء دونوں کا مقصد معیشت کو مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔ سعودی عرب نے مملکت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور تیل پر انحصار کم کرنے کیلئے ویژن 2030ء شروع کیا۔ یہ بھی یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسے ملک سے معاملتیں کرنے میں فائدہ ہی ہوتا ہے جو ایک طویل عرصہ تک آیا (سعودی عرب) سے گیس اور تیل خریدے گا۔ اس کے برعکس یوروپی صارفین شمسی توانائی (Solar Engary) اور Wind Power پر انحصار میں اضافہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کے ویژن 2030ء کا سوال ہے، اس کا مقصد دراصل سعودی عرب کو ایک ایسے مستقبل کیلئے تیار کرتا ہے،تیل کی اہمیت گھٹ جائے گی۔ اسی طرح اس کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسے Logistic Lab میں تبدیل کرتا ہے۔ ایسے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو بالکل موزوں ہوتا ہے۔ چین اور سعودی عرب کی دوستی دراصل جامع اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کے طور پر جاتی ہے۔ اگرچہ Bianco چینی تجزیہ نگار اسے دو ملکوں کا اتحاد کہہ رہی ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں نے حال ہی میں یہ کہا ہے کہ چین مشرق وسطی تعلقات میں ایک نیا دور شروع ہورہا ہے۔ جنوری میں واشنگٹن میں واقع میڈل اسیٹ انسٹیٹیوٹ کے نان ریسیڈنٹ اسکالر Roie Yellinek نے اس تعلق سے خیال ظاہر کیا تھا کہ علاقہ کے وزرائے خارجہ نے پچھلے ماہ چین کے دورے کئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں کی پالیسیوں اور موقف میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس سے اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے۔