چیچن قائد رمضان قدیروف پر امریکی پابندیوں میں اضافہ

   

Ferty9 Clinic

’’پومپیو! یہ لڑائی بہت دلچسپ ہوگی۔‘‘قدیروف کا ریمارک

کیف ۔ امریکی انتظامیہ نے روس کے جنوبی علاقے چیچنیا پر حکومت کرنے والے روسی حمایت یافتہ مسلم رہنما رمضان قدیروف پر ”انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں ” کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکہکا کہنا ہے کہ چیچنیا میں روسی حمایت یافتہ حکمراں رمضان قدیروف کورونا وائرس کی وبا کا بہانہ بنا کر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن روس ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ روسی صدر پوٹن کے اتحادی قدیروف چیچن عوام کو کچلنے اور ان کے حقوق کی پامالی کے لیے کورونا وائرس جیسی وبا کا سہارا لے رہے ہیں۔مائیک پومپیؤ کا کہنا تھا کہ امریکہ واضح طور پر رمضان قدیروف کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب مانتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”اس محکمے کے پاس ایسی کافی معتبر معلومات ہیں کہ قدیروف ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ سے ہونے والی انسانی حقوق کی متعدد سنگین خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہیں، جن میں تشدد، زد و کوب، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں شامل ہیں۔’’اس سے قبل امریکہنے پوٹن کے حامی چیچن حکمراں قدیروف کو میگنٹسکی ایکٹ کے تحت بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ 2012ء میں یہ قانون ایک روسی کارکن سرگئی میگنٹکسی کے نام پر وضع کیا گیا تھا جنہیں جیل میں ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ان روسی افراد پر ویزا کی پابندی اور ان کی جائیداد کی ضبطی کی جا سکتی ہے جو قتل میں ملوث ہوں۔ چیچن رہنماقدیروف نے ان پابندیوں کے رد عمل میں کہا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹیلیگرام چیانل پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے، جس میں وہ مشین گن کیساتھ مسکرا رہے ہیں، لکھا: ’’پومپیو! یہ لڑائی بہت دلچسپ ہوگی۔‘‘”43 سالہ قدیروف 2007 سے چیچنیا پر حکومت کر رہے ہیں اور دو مختلف جنگوں کے بعد سے روسی انتظامیہ خطے میں استحکام کے لیے انہیں پر اعتماد کرتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں قدیروف کی نگرانی میں مخالفین کا اغوا، ٹارچر اور ان کے قتل کا الزام لگاتی رہی ہیں۔’’انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں چیچنیامیں تقریبا 100 ہم جنس پرستوں کی گرفتاری، ان کو زد و کوب کرنے اور قتل کرنے کا الزام بھی چیچن حکام پر عائد کرتی ہیں۔ لیکن چیچنیاکے حکام ان الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ وفاقی ایجنسیوں نے بھی اس معاملے کی تفتیش کی ہے تاہم انہیں بھی اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔