ڈابر چیون پراش کیخلاف اشتہار چلانے پرپابندی رام دیو کی پتنجلی کو دہلی ہائی کورٹ سے بڑا جھٹکہ

   

نئی دہلی ۔3؍جولائی ( ایجنسیز)ڈابر انڈیا نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرکے پتنجلی کے ان ٹی وی اشتہاروں پر اعتراض ظاہر کیا تھا جو مبینہ طور پر ڈابر کے چیون پراش پروڈکٹ کو نشانہ بنا رہے تھے۔ اس کیس میں رام دیو کی کمپنی ’پتنجلی‘ کو دہلی ہائی کورٹ سے بڑا جھٹکہ لگا ہے۔ عدالت نے پتنجلی کے ذریعہ ڈابر چیون پراش سے جڑے کسی بھی طرح کے ’توہین آمیز‘ اشتہار شائع کرنے یا نشر کرنے پر روک لگا دی۔ دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ڈابر انڈیا کی عرضی پر سماعت کے بعد آیا ہے۔ دراصل ڈابر انڈیا نے یہ کہتے ہوئے عدالت میں عرضی داخل کی تھی کہ پتنجلی آیوروید اپنے اشتہار کے ذریعہ ہمارے پروڈکٹ ڈابر چیون پراش کو بدنام کر رہی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں عدالت نے اس معاملے سمن بھی جاری کیا تھا۔دہلی ہائی کورٹ کی جج منی پُشکرنا کی صدارت والی بنچ نے ڈابر انڈیا کو پتنجلی آیوروید کے خلاف چل رہے تنازعہ میں عبوری راحت فراہم کی۔ عدالت نے ڈابر کی عرضی قبول کرتے ہوئے عبوری راحت کی منظوری دے دی۔ معاملے کی اگلی سماعت اب 14 جولائی طے کی گئی ہے۔ڈابر کا الزام ہے کہ پتنجلی نے ڈابر پروڈکٹ کو معمولی بتا کر اس کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ پتنجلی کے اشتہار میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کا چیون پراش 51 سے زیادہ جڑی بوٹیوں سے بنا ہے جبکہ حقیقت میں اس میں صرف 47 جڑی بوٹیاں ہیں۔ ڈابر نے یہ بھی الزام لگایا کہ پتنجلی کے پروڈکٹ میں پارہ (Mercury) پایا گیا جو بچوں کیلئے نقصاندہ ہے۔ڈابر کی طرف سے سینئر وکیل سندیپ سیٹھی نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہاکہ پتنجلی نے گمراہ کن اور غلط دعویٰ کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہی واحد اصلی آیورودک چیون پراش بناتا ہے جبکہ ڈابر جیسے پرانے برانڈ کو معمولی بتایا گیا۔

سیٹھی نے یہ بھی بتایا کہ عدالت کے ذریعہ دسمبر 2024 میں سمن جاری کیے جانے کے باوجود پتنجلی نے ایک ہی ہفتہ میں 6182 گمراہ کن اشتہارات نشر کیے۔ڈابر نے یہ بھی کہا کہ وہ چیون پراش کے بازار میں 61 فیصد حصہ داری رکھتا ہے اور پتنجلی کے ذریعہ اس طرح کی تشہیر ایک مسابقتی حکمت عملی ہے جو برانڈ کے وقار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔دوسری طرف پتنجلی کی طرف سے سینئر وکیل جینت مہتو نے سبھی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پروڈکٹ میں سبھی جڑی بوٹیاں آیورویدک معیار کے مطابق ہیں۔ مصنوعات پوری طرح سے انسانی کھپت کے لیے محفوظ ہیں اور اس میں کوئی نقصاندہ عنصر نہیں پایا گیا۔