کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

   

بابری مسجد … بے حسی انتہا پر
راہول گاندھی سے بی جے پی خوفزدہ

رشیدالدین
’’آہ بابری مسجد ‘‘ بابری مسجد کے تصور کے ساتھ ہی آزاد ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ذہنوں میں ابھرنے لگتا ہے ، جب مذہبی جنونیوں نے عبادتگاہ کو ڈھاتے ہوئے ملک میں دستور ، قانون اور جمہوریت کی دھجیاں اڑادی تھیں۔ مسجد کی شہادت کو 32 سال مکمل ہوگئے بلکہ ایک نئی نسل پیدا ہوکر جوان بھی ہوگئی ۔ وقت کو مصائب اور آلام کا مرہم کہا جاتا ہے اور عام طور پر وقت گزرنے کے ساتھ غم بھی لوگ بھول جاتے ہیں ۔ بابری مسجد کا سانحہ ایسا غم نہیں ہے جسے بھلا دیا جائے بلکہ ہر سال اس غم کو تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلا مبالغہ ہم یہ کہنے کے موقف میں ہے کہ امت مسلمہ بابری مسجد کے قصورواروں میں شامل ہیں۔ بابری مسجد کا ملبہ جہاں کہیں بھی ہو ، اگر اللہ تعالیٰ اسے زبان دے تو وہ پکار کر کہے گا کہ جس وقت مجھ پر کدال چل رہے تھے، تم کہاں تھے۔ بابری مسجد اپنے وفاداروں کو تکتی رہ گئی لیکن خدائے واحد کی عبادت کا بھرم رکھنے والے باطل طاقتوں کے اگے ہتھیار ڈال کر شکست کو تسلیم کرچکے تھے۔ ہر سال 6 ڈسمبر کی تاریخ مسلمانوں کی ناکامی اور شرمندگی کی یاد تازہ کرتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابری مسجد کی شہادت کا غم بھی کمزور پڑچکا ہے اور یہاں تک کہا جانے لگا کہ جب مسجد کا وجود نہیں تو پھر غم کس بات کا۔ اپنا کچھ ذاتی نقصان ہوجائے تو مرتے دم تک نقصان کے ذمہ داروں حتیٰ کہ رشتہ داروں کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے قطع تعلق ہوجاتا ہے لیکن جب اللہ کے گھر کا معاملہ آجائے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتے ہیں کہ جس کا گھر ہے ، وہ حفاظت کرلے گا۔ مسلمان یہ بھول رہے ہیں کہ دنیا میں حق کے نفاذ کے لئے امت مسلمہ کو خیر امت کے طورپر برپا کیا گیا ہے ۔ روز قیامت کیا جواب دیں گے جب پوچھا جائے گا کہ ذاتی نقصان پر تو تڑپ اٹھتے اور مرنے مارنے آمادہ ہوجاتے لیکن اللہ کے گھر کو مسمار ہوتا دیکھ کر ایمانی حرارت کیوں نہیں جاگی۔ اکثریت اور اقلیت کی اصطلاح سے مسلمانوں کو بزدل بنادیا گیا اور دماغ میں بٹھادیا گیا کہ تم محض 20 فیصد ہو اور 80 فیصد سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہاں مقابلہ کا مطلب جنگ نہیں بلکہ اپنے حقوق کی جدوجہد ہے۔ ہم نے نبوت کے اس دور کو بھلادیا جس میں تمام غزوات میں مسلمانوں کو کم تعداد کے باوجود کامیابی نصیب ہوئی کیونکہ مسلمان ایمان اور اللہ پر یقین کامل سے سرشار تھے۔ ایمان آج بھی ہے لیکن بقول علامہ اقبال احساس زیاں ختم ہوچکا ہے۔ 6 ڈسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی گئی جو ملک میں مسلمانوں کی شکست اور حوصلے سے محرومی کا آغاز تھا۔ مخالف نے تجرباتی طور پر مسجد کی شہادت کو انجام دیا تاکہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا امتحان لیا جائے ۔ اس امتحان میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہر تاریخی مسجد کے نیچے مندر کو تلاش کیا جارہا ہے ۔ اگر بابری مسجد کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہوجاتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا کہ مساجد کی کھدائی کے ذریعہ مندروں کے آثار تلاش کئے جارہے ہیں۔ دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں پر مندر کی دعویداری کیوں نہیں ہے ؟ وہ اس لئے کہ کم تعداد کے باوجود وہ متحد ہیں جبکہ دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت 72 خانوں میں منقسم ہے۔ مساجد کی حفاظت کیلئے ابابیلوں اور ظلم کے خاتمہ کیلئے صلاح الدین ایوبی کے انتظار سے کچھ نہیں ہوگا۔ تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہیں کہ مصداق امت مسلمہ کو جمہوری اور دستور کے دائرہ میں اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے یوم سیاہ اور بند کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار ضرور کیا لیکن ہر سال یہ جذبہ بھی ماند پڑنے لگا اور یوم سیاہ کی رسم بھی آج ختم ہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کی بے حسی اور بابری مسجد کی شہادت سے لاتعلقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علماء کی قومی جمیعت سے وابستہ ایک ریاستی سربراہ نے 6 ڈسمبر کو فرزند کی شادی کا اہتمام کیا۔ یقیناً شرعی اعتبار سے انسانی موت پر غم محض تین دن کا ہوتا ہے لیکن اللہ کے کی شہادت کے غم کی کوئی مدت نہیں ہوسکتی۔ جن حالات اور ماحول میں یہ سانحہ پیش آیا ، اگر دین کو جانننے والے اور دوسروں کو عمل کی تلقین کرنے والے خود بھلادیں تو پھر دیگر مساجد کو نشانہ بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ گھر میں کسی کا انتقال ہوجائے تو کچھ عرصہ تک برسی کے نام پر یاد کیا جاتا ہے اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے جب برسی کے رسم کو بھی بھلادیا جاتا ہے ۔ وہ جماعتیں، تنظیمیں اور قیادتیں چاہے وہ مذہبی ہوں یا سیاسی جنہوں نے بابری مسجد کے ملبہ پر اپنی دکانات اور قیادتوں کو چمکایا تھا، جب سب کچھ حاصل ہوگیا تو مسجد کو بھول گئے۔ اب تو خوف اور مصلحت کا یہ عالم ہے کہ بابری مسجد کا نام لینے کیلئے تیار نہیں ۔ بابری مسجد ہندوستان میں انصاف کے قتل کی ایک علامت ہے اور مسلمانوں کی بے حسی کے سبب یہ مسلمانوں کی شکست کی علامت بن چکی ہے۔ گزشتہ دنوں 6 ڈسمبر کو مسجد کی شہادت کے 32 سال مکمل ہوگئے لیکن وہ دن بھی عام دنوں کی طرح گزر گیا۔ مسجد کے نام پر قیادتوں کو چمکانے والوں نے رسمی بیان تک جاری نہیں کیا۔ امت کے اکابرین کا قول ہے کہ کسی نقصان کا ہونا بڑا نقصان نہیں بلکہ نقصان سے زیادہ نقصان کے احساس کا ختم ہوجانا بڑا نقصان ہے۔ افسوس کہ مسلمان آج بابری مسجد کی شہادت کے نقصان کے احساس سے محروم کردیئے گئے ہیں، جس کیلئے قیادتیں ذمہ دار ہیں۔ الیکشن قریب ہوتا تو شائد بابری مسجد کی شہادت کو خوب اچھالا جاتا۔ اب ووٹ کی ضرورت نہیں ہے، نوٹ کسی بھی حال مل رہی ہے، ایسے میں مسجد کو فراموش کرتے ہوئے امت کے حوصلوں کو پست کیا جارہا ہے ۔
بابری مسجد اراضی تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں تسلیم کیا کہ 1949 میں غیر قانونی طریقہ سے مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھیں۔ عدالت نے مانا کہ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے تعمیر نہیں کی گئی۔ باوجود اس کے عدالت عظمیٰ نے مسجد کی اراضی آستھا کی بنیاد پر مندر کے حوالے کردی۔ 1991 میں عبادتگاہوں سے متعلق قانون بنایا گیا جس میں ملک کی تمام عبادتگاہوں کے 1947 کے موقف کو بحال رکھنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن تحت کی عدالتوں میں اس قانون کی پاسداری کا کوئی نظم نہیں ہے۔ کسی بھی مسجد سے متعلق درخواست ملتے ہی اسے قبول کرنے اور سروے کی ہدایت دینے کا رجحان چل پڑا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مسلمانوں نے تسلیم کرلیا لیکن اس بات کو یقینی نہیں بنایا کہ دوبارہ کسی مسجد پر دعویداری نہیں کی جائے گی ۔ مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے بعد 6 ڈسمبر کا رسمی احتجاج بھی ختم کردیا گیا، حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس مسئلہ کو نئی نسل تک پہنچانے کیلئے زندہ رکھنے کی ضرورت تھی۔ آنے والی نسلوں کو بابری مسجد سے ناانصافی کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور شہادت کا غم بطور وراثت نئی نسل میں منتقل ہونا چاہئے۔ جو قوم اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہے، اسے دنیا بھلا دیتی ہے۔ تاریخ سے فرار قوموں کے زوال کا سبب بن جاتا ہے۔ جاپان میں ہر سال ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملے سے تباہی کی یاد منائی جاتی ہے۔ دراصل جاپان کے عوام کو تاریخ سے ہر سال واقف کرایا جاتا ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی حکومت قائد اپوزیشن راہول گاندھی سے خوفزدہ ہے اور گزشتہ دنوں راہول گاندھی کو اترپردیش کے سنبھل دورہ سے روک دیا گیا۔ لوک سبھا میں قائد اپوزیشن کو دستوری مراعات حاصل ہے لیکن مرکزی حکومت نے یوگی ادتیہ ناتھ کو بچانے کیلئے راہول گاندھی کو سنبھل جانے کی اجازت نہیں دی ۔ سنبھل میں جو کچھ بھی ہوا، وہ دنیا کے سامنے ہیں، پھر بھی بی جے پی راہول گاندھی کے دورہ سے محض اس لئے خوفزدہ ہے کہ حکومت کا ظلم منظر عام پر آجائے گا۔ جامع مسجد کو مندر قرار دینے کی کوششوں میں رکاوٹ کے خوف سے راہول گاندھی کو اترپردیش کی سرحد پر روک دیا گیا۔ آخر یوگی حکومت سنبھل میں کیا چھپانا چاہتی ہے کہ اپوزیشن کو دورہ کی اجازت نہیں۔ پولیس نے احتجاجی مسلم نوجوانوں پر جس طرح فائرنگ کی ، اس سے جلیان والا باغ واقعہ کی یاد تازہ ہوگئی جب انگریزوں نے مجاہدین آزادی پر گولیاں برسائی تھیں۔ یوگی حکومت نہیں چاہتی کہ مساجد کے نام پر روزانہ اٹھنے والے تنازعات کا سلسلہ تھم جائے۔ روزانہ کسی نہ کسی مسجد اور درگاہ پر مندر کی دعویداری پیش کی جارہی ہے اور عدلیہ کی جانب سے درخواستوں کو قبول کرنا معنی خیز ہے۔ دراصل سنبھل کے واقعہ پر مسلمانوں کی جانب سے جس طرح کا ردعمل ہونا چاہئے تھا ، وہ نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہیں۔ علامہ اقبال نے کئی دہے قبل مسلمانوں کی بے حسی کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا