کرناٹک کے وجئے پور میں برہمن خاندان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال

   

مسلمانوں کیلئے گھر پر دعوت افطار اور نماز مغرب کا اہتمام، برسہا برس سے یہ روایت برقرار
حیدرآباد 14 مارچ (سیاست نیوز) کرناٹک میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں وقتاً فوقتاً جاری ہیں لیکن وجئے پور میں ایک برہمن خاندان فرقہ پرست طاقتوں کے لئے چیلنج بن چکا ہے۔ مساجد اور نمازوں کے خلاف مہم کے دوران وجئے پور کا یہ برہمن گھرانہ جو جاگیردار کے نام سے مشہور ہے، گزشتہ کئی برسوں سے ماہ رمضان میں روزہ داروں کیلئے اپنے گھر میں دعوت افطار کا اہتمام کرتا ہے۔ اِس خاندان نے گھر میں ایک ہال نماز کی ادائیگی کے لئے مختص کر رکھا ہے جہاں جائے نماز کا انتظام کیا جاتا ہے۔ مقامی مسلمانوں کیلئے اِس خاندان کی دعوت افطار ہمیشہ یاد رہتی ہے اور یہ خوشگوار ماحول علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کیشور جاگیردار اور اُن کی شریک حیات کویتا جاگیردار دعوت افطار کا اہتمام کرتے ہیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کی تواضع کرتے ہوئے علاقہ میں ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت بن چکے ہیں۔ دعوت افطار میں مرد اور خواتین روزہ داروں کیلئے علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے۔ 70 سالہ کیشور جاگیردار دراصل لکشمی نارائن مندر کے پجاری ہیں اور اُن کی شریک حیات کویتا جاگیردار مشہور سنگر رہ چکی ہیں۔ وجئے پور میں اِس خاندان کی جانب سے موسیقی کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں جن میں کنڑ کے علاوہ ہندی اور اُردو کے پروگرام شامل رہتے ہیں۔ کویتا جاگیردار کے مطابق اُنھوں نے مسلم بھائیوں کیلئے دعوت افطار کا جذبہ اپنے سسرال سے حاصل کیا۔ اُن کے سسرال میں بھی ہر رمضان کے موقع پر دعوت افطار کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ساس اور خسر کے گزر جانے کے بعد اُنھوں نے بڑے پیمانے پر افطار کا فیصلہ کیا اور اِس کیلئے علیحدہ مکان حاصل کیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جاگیردار خاندان کا ماننا ہے کہ دعوت افطار سے اُنھیں روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ دعوت کے ذریعہ روزہ دار مسلم بھائی بہنوں سے ملاقات کا موقع نصیب ہورہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں آج نفرت کے بجائے محبت اور بھائی چارہ کے ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جاگیردار خاندان میں دیپاولی، گنیش چتورتھی، ہولی، اُگادی اور دیگر تہواروں میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اُن کیلئے دعوت کا اہتمام ہوتا ہے۔ کویتا نے کہاکہ وہ جب تک باحیات ہیں اِس تسلسل کو جاری رکھیں گے اور اپنی اولاد کو بھی اِس روایت کی برقراری کی تلقین کریں گے۔ کویتا کو اِس بات کی خوشی ہے کہ متبرک ماہ میں روزے جیسی عبادت میں شامل افراد اُن کے گھر پہونچ کر گھر کی زینت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شمولیت کے ذریعہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ 1