ششی شیکھر
میں ایک کسان خاندان کا فرد ہوں اور بچپن سے ہی مجھے کاشتکاروں کی سخت زندگی کا احساس ہے۔ آج کل یہ جھوٹ پھیلائی جارہی ہے اقل ترین امدادی قیمت اور منڈیوں کے ذریعہ ان جھوٹی باتوں کی اشاعت ہو رہی ہے۔ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے احتجاجی کسانوں کے ساتھ ربط پیدا کرتے ہوئے ان کی تجاویز کو مسترد کردیا۔ سب سے پہلے کس نے غلطی کی؟ ماضی کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ اس طویل احتجاج سے بڑا عدم استحکام پیدا ہوگا۔
سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ نے جس کی قیادت چیف جسٹس کررہے تھے کہا کہ اگر اس مسئلہ کی جلد ہی یکسوئی نہ ہو جائے تو یہ احتجاج ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیل جائے گا۔ سپریم کورٹ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ کسی کے بھی ساتھ اختلاف رائے کا حق چھین نہیں سکتی۔ جب تک کہ اس سے دوسروں کے حقوق پر کوئی اثر مرتب نہ ہوتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تعطیلات میں کام کرنے والی بنچ کو اس معاملہ کی سماعت سپرد کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کیا حکومت ان قوانین کو چند دنوں تک ملتوی نہیں کرسکتی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے سامنے یہ تجویز پیش کریں گے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ایک آزاد کمیٹی بات چیت کے لئے قائم کی جائے۔ اس طرح حکومت کو کچھ مہلت حاصل ہوسکتی ہے۔ کسان تاہم مرکز سے مطالبہ کررہے ہیں کہ مسئلہ کی یکسوئی کی جائے اور تینوں قوانین سے دستبرداری اختیار کی جائے۔ حکومت نے قبل ازیں تجویز پیش کی گئی تھی کہ بعض ترمیمات کی جائیں گی، لیکن اس کی کسانوں کی جانب سے تائید نہیں کی گئی۔ اگر دونوں فریقین تجویز کو مسترد کرتے ہیں تو انہیں لچکدار رویہ اختیار کرنا ہوگا ورنہ یہ تعطل کئی دن تک طویل ہونے کے اندیشے ہیں۔
اس احتجاج سے پیدا ہونے والا اصل مسئلہ یہ حقیقت ہے کہ دہلی میں داخل ہونے کے چار مقامات کی مکمل ناکہ بندی یا جزوی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ لاکھوں افراد روزانہ دہلی کا سفر کرتے ہیں اور قومی دارالحکومت کے علاقہ میں انہیں کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے۔ اگر ان کی نقل و حرکت کم کردی جائے، گزشتہ سال شاہین باغ احتجاج کے دوران ایسا ہوچکا ہے لیکن ایک ہی سڑک بند کردی گئی تھی۔ اگر قومی دارالحکومت میں داخلہ کے تمام مقامات مکمل طور پر بند کردیئے جائیں تو اس کے مضر اثرات نہ صرف عوام پر مرتب ہوں گے بلکہ حکومت پر بھی عوام پہلے ہی سے وباء اور معاشی ابتری کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
دہلی اور قومی دارالحکومت کے تاجر طبقہ نے پہلے ہی سے ان اثرات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔ آزاد پور منڈی میں ترکاریوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے جنہیں کسان پیدا کیا کرتے تھے۔ یہ عارضی تازہ رہنے والی اشیاء پر ناکہ بندی سے بہت کم مضر اثرات پڑتے ہیں۔ کئی افراد جو احتجاج کررہے ہیں بوڑھے ہیں اور اندیشہ ہے کہ ان پر شدید سردی کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ابتک 25 سے زیادہ احتجاجی مبینہ طور پر احتجاج کے مقامات پر ہلاک ہوچکے ہیں۔ کرنال کے قریب ایک گردوارہ سے ایک بوڑھے پجاری سنت رام سنگھ نے خودکشی کرلی ہے۔ غالباً وہ احتجاجی کسانوں کی حالت پر ناراض تھے۔ ان کی آخری رسوم 25 دسمبر کو ادا کی گئیں۔ کاشتکار تنظیمیں دیہاتوں میں احتجاج کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ان تمام افراد کا یوم شہیداں منایا جائے گا جو احتجاجی مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔
واضح طور پر ایسا ہمدردی اور تائید کی لہر پیدا کرنے کے لئے کیا جارہا ہے کیونکہ قبل ازیں اسی قسم کے احتجاجی مظاہروں کا غیر سماجی عناصر کی جانب سے استحصال کیا جاچکا ہے اور اس بار بھی اس کا خطرہ ہے تاہم اشتعال انگیز ماحول کے باوجود اب تک یہ احتجاج پرامن رہا ہے۔ حکومت اور بی جے پی خود اپنے سیاسی اقدامات کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی شخصی طور پر کچھ اور مدھیہ پردیش کے کسانوں سے بات چیت کرچکے ہیں۔ انہوں نے کسانوں کو ایک پیغام بھی روانہ کیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بنگال کے کسانوں سے ملاقات کرچکے ہیں جبکہ یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کسانوں کے عام جلسوں سے میرٹھ اور بریلی میں منعقد کئے گئے تھے خطاب کرچکے ہیں۔ حکومت واضح طور پر ان احتجاجی مظاہروں کو مزید پھیلنے سے روکنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان احتجاجی مظاہروں کو بعض ناراض کسانوں کے جو محدود علاقوں میں مقیم ہیں کارستانی قرار دینا اور محدود پیمانے کا احتجاج ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بعض رجائیت پسند کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے ردعمل سے زراعت اور کاشتکاری اُجاگر ہوگئی ہے لیکن اس مسئلہ کے وسیع تر نتائج بھی ہیں کیونکہ پنجاب ایک حساس سرحدی ریاست ہے۔ ایک انوکھا آمیزہ مذہب، سماجی و معاشی عناصر اور سیاست کا پنجاب کے سماج میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس کا استحصال بعض عناصر نے ماضی میں کرتے ہوئے علیحدگی کی تحریک شروع کی تھی جس کی ملک کو بھاری قیمت چکانی پڑی تھی۔ اگر اس احتجاج پر بھی علیحدگی پسند تحریک کا الزام لگایا جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ خالصستان کی تحریک ہنوز جاری ہے۔
تاہم حکومت کے پیش نظر مسئلہ یہ ہے کہ کثیر تعداد میں کسانوں کی تنظیموں سے کیسے نمٹا جائے۔ اگر تحریک کی قیادت پر کنٹرول کیا جائے تو حکومت کے لئے اس احتجاج سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ حکومت برسر اقتدار پارٹی کے لئے اقتدارر کی مراعات ضرور لاتی ہے لیکن اس پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے۔ آج صورتحال چوراہے پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت کے سامنے اس کا احساس کرنے کے سوائے کوئی اور متبادل موجود نہیں ہے۔