کشمیری مسلمانوں کیانسانیت نوازی

   

رام چندر گوہا
پہلگام دہشت گردانہ واقعہ نے سارے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہر کوئی 26 ہندوستانیوں کے مارے جانے پر غم میں مبتلا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت ہند نے اس دہشت گردی کے لیے پڑوسی ملک پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا اور اس کے خلاف کئی اقدامات کیے ہیں دوسری جانب میڈیا کا ایک گوشہ ایسا بھی ہے جو اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مصروف ہے لیکن انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے تو پہلگام میں جو کچھ ہوا وہ انسانیت کے خلاف ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ پہلگام دہشت گردنہ حملے نے جہاں دہشت گردی کا خطرناک چہرہ بے نقاب کیا ہے وہیں ایسے عناصر کو بھی بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے جو اس واقعے کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے فرقہ پرستوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے اس واقعے کو لے کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر لیں گے لیکن کشمیری گائیڈز ڈرائیورز اور مختلف خدمات کے ذریعے سیاحوں کا دل جیتنے والے دیگر کشمیریوں نے انسانیت کی جو مثالیں قائم کی ہیں اس کی ستائش کی جانی چاہیے لیکن افسوس کہ ہمارے میڈیا کا ایک گوشہ کشمیریوں کی انسانیت پر تعصب وہ جانبداری کے دبیز اور تعفن زدہ پردے ڈالنے کی نہ کام کوششوں میں مصروف ہے پہلگام میں جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کے رشتہ داروں کے جو بیانات منظر عام پر ا رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں جہاں فرقہ پرست ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں ایسی ہی ایک کہانی کیرلا کے رہنے والے این رام چندرن کی ہے وہ اپنے ارکان خاندان کے ہمراہ کشمیر گئے تھے اور پہلگام میں دہشت گردوں نے انہیں گولی مار دی لیکن ان کی بیٹی ارتی سرت کے بارے میں انگریزی کے اخبار دی ہندو میں ایک کہانی یا رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں اپنے والد کے قتل پر غم میں مبتلا ارتی سرت نے کسی قسم کی برہمی ظاہر کرنے کی بجائے تمام ہندوستانیوں کو محبت کا پیام دیا ہے ہندو سے بات کرتے ہوئے ارتی کا کہنا تھا کہ مسافر اور مقامی ڈرائیور سمیر نے ان کی جو مدد کی ہے اسے وہ زندگی بھر فراموش نہیں کر پائیں گی۔
ارتی نے مزید بتایا کہ جس وقت دہشت گردی کا یہ واقعہ پیش ایا ان کے ساتھ مسافر اور سمیر نے جس طرح کا سلوک کیا وہ وہ غیر معمولی تھا انہوں نے بے شک کشمیر میں اپنے والد کو کھویا لیکن دو بھائیوں کو پایا ہے اور یہ دو بھائی مسافر اور سمیر ہیں، ارتی کے مطابق مسافر اور سمیر ان کے ساتھ سائے کی طرح رہے اور جس وقت وہ درمیانی شب تین بجے مردہ خانے کے باہر ٹھہری ہوئی تھی اس وقت بھی مسافر، ضمیر ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح ٹھہرے رہے ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گردوں نے اُن یعنی ارتی کے والد کو گولی نہیں ماری بلکہ مسافر اور سمیر کے والد کو گولی ماری ۔آرتی نے بتایا کہ دونوں نے میرے ساتھ اپنی چھوٹی بہن کی طرح سلوک کیا اب کشمیر نے مجھے ایک نہیں بلکہ دو بھائی دیے ہیں۔دوسرے اخبارات میں شائع رپورٹس اور ٹی وی چینلز میں دکھائے گئے مناظر سے یہ توثیق ہوتی ہے کہ مسافر اور سمیر نے حقیقت میں کشمیر کے نمائندوں کی طرح اس کے سفیر کی طرح کام کیا۔ جس وقت دہشت گردوں نے سیاحوں کو قتل کیا اور جس جرم اور گناہ کا ارتکاب کیا اس وقت کشمیری گائیڈز اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر سیاحوں کی زندگیاں بچائی ان میں سے کم از کم ایک گائیڈجو مسلمان تھا لوگوں کی زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔ دہشت گردوں نے اسے گولی مار دی کیونکہ وہ سیاحوں کو بچانے کے لیے دہشت گرد ہوں سے ان کی بندوق چھیننے کی کوشش کر رہا تھا دہشت گردوں نے اسے بڑی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا اور وہ شہید ہو گیا صرف انسانیت کا یہ ایک ہی واقعہ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں نے خوف و دہشت میں مبتلا سیاحوں کے لیے اپنی مساجد کے دروازے کھول دیے ان کے سونے کا رہنے کا انتظام کیا کشمیریوں کی انسانیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈرائیوروں نے سیاحوں سے پیسے بھی نہیں لیے بلکہ انہیں انسانیت کے ناطے بالکل مفت میں سری نگر ایئرپورٹ تک پہنچایا اس طرح کے عمل کے ذریعے کشمیریوں نے یہ بتا دیا کہ ان کے لیے انسانیت ہی اول ہے۔دہشت گردانہ حملے کے دوسرے دن سارے کشمیر میں ہڑتال کی گئی دکانات ہوٹلیں اسکولز کالجز بند رہے اس طرح کشمیریوں نے دہشت گردوں کے خلاف اپنی برہمی اور مقتول سیاحوں کے لیے اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کیا کشمیریوں کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے 26 انسانوں کو قتل نہیں کیا بلکہ انسانیت کا قتل کیا سب سے اچھی بات یہ رہی کہ تمام سیاسی جماعتوں نے چاہے وہ حکمران جماعت ہو یا پھر اپوزیشن دہشت گردوں کے خلاف ان کی مذمت کرتے ہوئے ریالیاں نکالیں اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ان جماعتوں کے قائدین نے سرحد پار دہشت گردوں کہ اقاؤں کی بھی مذمت کی۔ ہندوؤں کو نشانہ بنا کر دہشت گرد دہشت گردوں کو امید تھی کہ وہ ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کر دیں گے اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف لا کھڑا کریں گے لیکن کشمیر سے جو کہانیاں منظر عام پر ائی ان کا کہانیوں نے ان دہشت گردوں کے عزائم کو بلکلیہ طور پر ناکام بنا دیا۔
مدھیہ پردیش میں کانگرس کے ایک رکن اسمبلی جو مسلمان ہیں انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی گئی گجرات میں جہاں بی جے پی کا اقتدار ہے پولیس نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ لوگ ہندوستانی نہیں بلکہ در انداز ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے پاس اپنے ہندوستانی ہونے کے دستاویزات موجود ہیں ان لوگوں نے حکومت اور انتظامیہ کے دعووں کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ وہ ہندوستانی ہیں اسی طرح اتر پردیش اترکھنڈ اور پنجاب میں کشمیری طلباء کو دائیں بازو کے غنڈوں نے نہ صرف پریشان کیا بلکہ انہیں اپنے ہاسٹلز چھوڑنے پر بھی مجبور کیا اس طرح ان کشمیری طلباء کو تعلیم سے محروم رکھنے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی چنانچہ کشمیر طلبہ نے اپنا تعلیمی سلسلہ ترک کرتے ہوئے اپنی ریاست واپسی میں ہی عافیت جانی حد تو یہ ہے کہ مسوری میں کشمیری شال فروخت کرنے والے کشمیریوں کو دائیں بازو کے غنڈوں کی دھمکیوں کے نتیجے میں اپنی تجارتی سرگرمیاں ترک کرتے ہوئے وادی واپس ہونا پڑا ۔ حکومت نے کشمیر کے کئی مقامات پر کئی مکانات کو نشانہ بنایا اور ان پر بلڈوزر چلا دیا حالانکہ ان کشمیریوں نے واضح طور پر کہا کہ دہشت گردی واقعے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں وہ تو اس طرح کے انسانیت سوز واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی اور سابق وزیراعظم یعنی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہ لال نہرو میں کس طرح زمین و اسمان کا فرق ہے جس وقت ملک کی تقسیم عمل میں ائی تھی اس وقت 15 اکتوبر 1947 کو پنڈی جوالہ نے ریاستوں کے چیف منسٹرز کو مکتوب لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں مسلم اقلیت موجود ہے اور کافی تعداد میں ہیں وہ چاہتے تو کسی بھی ملک میں منتقل ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا انہوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا پاکستان چاہے جتنی اشتعال انگیزی کر لے لیکن ہمیں اپنی اقلیت کے ساتھ مہذب انداز میں سلوک کرنا ہوگا پاکستان میں ہندوؤں پر ظلم کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم کیا جائے بلکہ ہمیں مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ اقلیتوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔