یوروپ کے اراکین پارلیمان کی ایک جماعت نے منگل کو کشمیر کا دورہ کیا۔ اس دورے کو سبھی اراکین پارلیمان کا ذاتی دورہ بتایا جا رہا ہے، لیکن آنا جانا، کھانا پینا اور ٹھہرنے تک کا انتظام ہندوستانی انتظامیہ برداشت کر رہی ہے۔
اس جماعت میں شامل ہونے کے لیے یوروپ کے جن اراکین پارلیمان کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا، ان میں یوروپی پارلیمان کے رکن کرس ڈیوس بھی تھے، لیکن انہوں نے کہا ہے کہ آخری وقت میں انھیں دی گئی دعوت واپس لے لی گئی، اور کشمیر جانے والی ٹیم میں انھیں جگہ نہیں دی گئی۔کرس ڈیوس پارلیمان میں مغربی انگلینڈ کے نمائندہ ہیں۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’’ہندوستانی انتظامیہ کے سامنے ایک شرط رکھی تھی کہ کشمیر میں انھیں گھومنے پھرنے اور لوگوں سے بات چیت کرنے کی آزادی دی جائے۔ “
بی بی سی سے بات چیت میں کرس ڈیوس نے بتایا کہ ’’میں نے کہا کہ میں کشمیر میں اس بات کی آزادی چاہتا ہوں کہ جہاں میں جانا چاہوں جا سکوں اور جس سے بات کرنا چاہوں، اس سے بات چیت کر سکوں۔ میرے ساتھ فوج، پولس یا سیکورٹی فورس کی جگہ آزاد صحافی اور ٹیلی ویژن کی ٹیم ہو۔‘‘
ان کا مزید دعویٰ ہے کہ جدید سماج میں پریس کی آزادی بے حد اہم ہے، کسی بھی حالت میں ہم خبروں میں کانٹ چھانٹ کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں سچائی اور ایمانداری سے رپورٹنگ ہونی چاہیے۔‘‘ڈیوس نے دعویٰ کیا کہ ان کی اس شرط کے کچھ دن بعد انھیں بھیجی گئی کشمیر دورے کی دعوت واپس لے لی گئی۔
ڈیوس کا کہنا ہے کہ کشمیر دورے کی دعوت پی ایم نریندر مودی کی حامی مبینہ ’ویمنس اکونومک اینڈ سوشل تھنک ٹینک‘ کی جانب سے ملی تھی۔ دعوت نامہ میں صاف کیا گیا تھا کہ دورہ کا انتظام ہندوستانی انتظامیہ کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں کہا گیا کہ اس دورے کا خرچ ’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار نان ایلائنڈ اسٹڈیز‘ اٹھائے گا۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے کہ اس ادارہ کو ملنے والے فنڈ کا ذریعہ کیا ہے۔بی بی سی سے بات چیت میں ڈیوس نے کہا کہ ’’اسپانسروں نے شروعات میں کہا کہ ’تھوڑی سیکورٹی‘ ضروری ہوگی لیکن دو دن کے بعد مجھے بتایا گیا کہ دعوت نامہ رد کیا جا رہا ہے کیونکہ دورہ میں لوگوں کی تعداد ’پوری‘ ہو گئی ہے اور مجھے دی گئی دعوت پوری طرح سے واپس لے لی گئی۔‘‘ڈیوس کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ اسپانسروں کو ان کی شرطوں سے اعتراض تھا، اسی لیے دعوت نامہ رد کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں مودی حکومت کے پی آر اسٹنٹ میں حصہ لینے اور یہ ظاہر کرنے کو تیار نہیں تھا کہ آل اِز ویل۔
میں نے اپنے ای میل کے ذریعہ ان کے سامنے یہ پوری طرح سے صاف کر دیا تھا۔ اگر کشمیر میں جمہوری اصولوں کو کچلا جاتا ہے تو دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ وہ کیا ہے جو ہندوستانی حکومت کو چھپانا ہے؟ وہ صحافیوں اور دورہ کرنے والے لیڈروں کو مقامی لوگوں سے آزدای سے بات چیت کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیں گے؟ ان کے جواب سے لگتا ہے کہ میری گزارش کو پسند نہیں کیا گیا۔‘‘ڈیوس نے کہا کہ کشمیر دورہ کی دعوت واپس لیے جانے پر وہ ’حیران‘ نہیں تھے۔ انھوں نے کہا ’’مجھے شروع سے ہی یہ دورہ پی آر اسٹنٹ کی طرح لگا جس کا مقصد نریندر مودی کی مدد ہے۔
ڈیوس کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اس کی پوری جانکاری نہیں ہے، لیکن ہم لوگوں کو جیل میں ڈالنے، میڈیا پر پابندی، مواصلات کے ذرائع پر سخت پابندی اور فوج کے کنٹرول کے بارے میں سنتے ہیں۔ حکومت کی کارروائی کو لے کر چاہے جتنی بھی ہمدردی ہو، یہ فکر بھی ہونی چاہے کہ یہ قدم فرقہ وارانہ تعصب سے متاثر ہے۔ مسلم، ہندو نیشنلزم کو بااثر نظام کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور یہ مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہے۔