کورونا وائرس کا پھیلاؤ، تبلیغی جماعت نشانہ

   

رام پنیانی
ہندوستان لاک ڈاون کے تحت ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان کوششوں کے باوجود ملک میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ تقریباً 400 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہندوستان کورونا وائرس کے ’’قہر سے دہل ساگیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ زندگی دوبارہ پہلی جیسی نہیں ہوگی‘‘۔
ہندوستان میں جو چیز سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا کرنے والی ہے۔ وہ ایک مذہبی تنظیم تبلیغی جماعت کی غلطی ہے جسے میڈیا کا ایک بڑا گوشہ موجودہ سانحہ کا باعث قرار دے رہا ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز پیامات پوسٹس کرنے میں بھی تیزی پیدا کردی گئی ہے۔ منافرت پیدا کرنے والی اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اروناچل پردیش اور دیگر ریاستوں میں مسلم ٹرک ڈرائیوروں کو مارا پیٹا جارہا ہے اور یہاں تک کہ انہیں اپنے ٹرکس چھوڑکر جانے کے لئے مجبور کیا گیا۔جہاں تک تبلیغی جماعت کا سوال ہے یہ کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد وابستہ ہے حالانکہ اس جماعت کا قیام ایک صدی قبل عمل میں آیا تھا۔ تبلیغی جماعت کی توجہ دین اسلام پر چلنے اور چلانے پر مرکوز رہتی ہے۔ دعوت دین پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ جس طرح پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دین کی دعوت دی تھی، نیکی کی طرف بلایا، گناہوں سے بچایا تبلیغی جماعت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتی ہے۔ تبلیغی بات چیت اور مذاکرات پر توجہ نہیں دیتے بلکہ مسلمانوں کو دین کی راہ پر چلنے والا بناتے ہیں۔ دعوت دین کو ہی وہ حقیقی اسلام تصور کرتے ہیں۔تبلیغی حضرات کی توجہ اس دنیا پر نہیں ہوتی بلکہ آخرت سنوارنے یعنی موت کے بعد کی زندگی سنوارنے پر ہوتی ہے۔ جنت اور دوزخ پر ہوتی ہے ہاں … بعض سیاسی امور پر وہ اپنی رائے بھی دیتے رہتے ہیں جیسے شہریت ترمیمی قانون کا مسئلہ وغیرہ۔
ملک میں کورونا وائرس متاثرین کے بارے میں کچھ دن قبل تک یہ کہا جارہا تھا کہ اندازاً ان میں ایک تہائی افراد تبلیغی جماعت کی جانب سے کی گئی غلطیوں کے نتیجہ میں متاثر ہوئے ان لوگوں نے دہلی کے علاقہ حضرت نظام الدین میں واقع مرکز میں 13 تا 15 مارچ ایک اجتماع منعقد کیا تھا، یہ ہندوستان میں تبلیغی جماعت کا مرکزی دفتر ہے۔ اس اجتماع میں ملک و بیرون ملک سے شرکا نے شرکت کی۔ اس پہلے ملائیشیا میں بھی ایسا ہی ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں شریک کئی افراد اس وائرس کی زد میں آئے۔ زیادہ تر یہی قیاس کیا جارہا ہے کہ اس اجتماع میں شرکت کے بعد ہوسکتا ہے کہ دہلی اجتماع میں شرکت کرتے ہوئے ان لوگوں نے یہ وائرس ہندوستان میں پھیلانے کا ذریعہ بن گئے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن لوگوں نے بیرونی ممالک سے دہلی کے اجتماع میں شرکت کی ضرور دہلی آنے کی تیاریاں کی ہوں گی۔ اجازت حاصل کی ہوگی۔ دیگر چیزوں کے علاوہ حکومت ہند سے ویزا بھی حاصل کیا ہوگا۔ وہ لوگ غیر قانونی طور پر ملک میں گھس نہیں آئے تھے۔

دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکزی دفتر سے پولیس اسٹیشن بہت دور نہیں ہے، بلکہ قریب ہے جو عام طور پر تبلیغی جماعت کے صدر دفتر میں ہونے والی سرگرمیوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہے۔ یہ جو تمام واقعہ رونما ہوا ہے اس کی مکمل تحقیقات کروائے جانے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد سعد اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ مولانا سعد سردست قرنطینہ میں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرہ کے ابتداء میں صحت عامہ کے قواعد سے انحراف کرتے ہوئے انہوں نے اپنے فالوورس سے کہا کہ ایسے 70 ہزار فرشتے ہیں جو کمیونٹی کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اگر ایک اچھے مسلمان کو مرنا ہوتو اس کے لئے مسجد میں آنے والی موت بہتر ہوتی ہے۔ابتداء میں اگرچہ انہوں نے نامعقول بیان دیا لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی تصحیح کرتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹروں کے مشورہ پر میں خود قرنطینہ میں ہوں اور تبلیغی جماعت کے کارکنوں سے چاہے وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں کیوں نہ ہو اپیل کرتا ہوں کہ وہ قانون کی پاسداری کریں۔ بہرحال یہ کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلانے میں تبلیغی جماعت کا مجرمانہ رول رہا ہے، لیکن اس کے پیچھے جو کرانولوجی ہے وہ ہمیں بتاتی ہے کہ تبلیغی جماعت کی جو کوتاہیاں ہیں وہ بڑی کوتاہیوں کا ایک حصہ ہے۔ یہ وہ کوتاہیاں ہیں جس نے ہمارے ملک میں اس سانحہ کو مزید بڑھا دیا۔یقیناً ہم کو یاد ہوگا کہ فروری کے وسط میں کورونا وائرس وباء کو عالمی ادارہ صحت WHO نے عالمی خطرہ قرار دیا ساتھ ہی طیرانگاہوں پر مسافرین کی اسکریننگ کے اہتمام پر زور دیتے ہوئے کورونا وائرس پھیلنے کا انتباہ بھی دیا۔ہندوستان میں کورونا وائرس متاثرین کے کیسیس کا تعلق ایسے بین الاقوامی مسافرین سے تھا جنہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا یا ملک میں داخل ہوچکے تھے کیونکہ طیرانگاہوں پر اسکریننگ کا عمل بہت تاخیر سے بلکہ مارچ کے وسط میں ہوا۔

13 مارچ کو کورونا وائرس سے متعلق دو اہم پروگرامس یہاں منعقد ہوئے۔ ایک تو وزارت صحت کے لاو اگروال کا بیان تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کورونا وائرس ایک ایمرجنسی نہیں ہے۔ دوسرے دہلی چیف منسٹر اروند کجریوال کا جاری کردہ وہ سرکیولر تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ وباوں کے انسداد سے متعلق خواتین کے تحت 200 سے زائد افراد کو ایک مقام پر جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے تین دن بعد انہوں نے ایک اور سرکیولر جاری کیا اور ایک مقام پر 50 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب تبلیغی جماعت کا اجتماع جاری تھا اس وقت مرکزی وزارت صحت کا عہدہ دار یہ کہہ رہا تھا کہ کورونا وائرس ایک قومی ایمرجنسی کا مسئلہ نہیں ہے۔اس وقت تبلیغی جماعت سے جو غلطی سرزد ہوئی وہ 200 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کرنے والے سرکیولر کی خلاف ورزی تھی۔ اور یہی تبلیغی جماعت کی قیادت کا جرم ہے۔بعد میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ 22 مارچ کو جنتا کرفیو رہے گا اور 24 مارچ کو انہوں نے ملک گیر سطح پر لاک ڈاون کا اعلان کردیا۔ 21 مارچ کو ریل ٹرانسپورٹ روک دی گئی یہ وقت وہ تھا جب تبلیغی مرکز میں موجود لوگ اسی طرح پھنس گئے جس طرح ملک کے مختلف مقامات پر کئی یاتری پھنس گئے تھے۔بہرحال کورونا وائرس کے لئے الزامات و جوابی الزامات عائد کئے جاتے رہیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کا خطرہ حقیقی ہے اور اس سے عالمی ادارہ صحت نے تک غفلت برتی ہے۔
غلطیوں کا ارتکاب صرف تبلیغی جماعت نے ہی نہیں کیا بلکہ کئی مذہبی تنظیموں نے بھی سماجی دوری بنائے رکھنے سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی کی۔ ایسے کئی سیاسی پروگرامس بھی منعقد ہوئے جن میں سماجی فاصلے برقرار کھنے کے قواعد کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ دوسروں کی جانب سے کی گئی غلطیاں تبلیغی جماعت کو اس کی غلطیوں سے نہیں بچاسکتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف ایک فریق کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور اسے چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔تبلیغی جماعت کے بارے میں مختلف باتیں کی جارہی ہیں لیکن اس کے لئے تمام مسلمانوں پر الزام عائد کرنا اور انہیں ذمہ دار قرار دینا خطرناک ہے۔

خاص طور پر میڈیا نے تبلیغی جماعت کی غلطیوں کو جان بوجھ کر جس انداز میں پیش کیا اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ہندوستان پر مسلمانوں کا منظم حملہ ہے۔ میڈیا کی ان غیر ذمہ دارانہ حرکتوں نے نفرت اور افواہیں پھیلانے والوں کو ایک نیا ہتھیار فراہم کردیا ۔ ان کے حوصلے بلند ہوگئے۔ ایسی حرکتیں انتہائی گھٹیا ہیں یہ لوگ مذہبی خطوط پر سماج کو تقسیم کرنے کے اپنے گندہ کھیل میں شدت پیدا کرچکے ہیں۔ان افواہوں کے نتیجہ میں کافی نقصان ہوچکا ہے اور ان سے اسلاموفوبیا لوگوں میں بڑھ گیا ہے۔ ویسے بھی گزشتہ دو دہوں سے یہی دیکھا جارہا ہے کہ مذہبی خطوط کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرتے ہوئے ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے اور حالات مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتنے انہیں الگ تھلگ کرنے سے بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔
یہ بات بھی تسلی بخش ہے کہ اقوام متحدہ نے لوگوں کو ان کے مذہب یا نسل کی بنیاد پر نشانے بنانے کے خلاف انتباہ دیا ہے۔ اس معاملہ میں ہم کیرالا، مغربی بنگال، آندھرا پردیش اور مہاراشٹرا کے وزرائے اعلی کی مثال پیش کرسکتے ہیں ان تمام نے ایسی نفرت انگیز مہم کی مذمت کی ہے۔ اور اس نازک گھڑی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی درخواست کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بحران میں ہمارا اتحاد ہی بحالی امن کو یقینی بنائے گا اور جس سے آنے والے دنوں میں ملک کا بھلا ہوگا۔