دنیا کی سب سے بڑی معیشت میں 4.8 فیصد کا انحطاط
تاحال 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد امریکی روزگار سے محروم
مہلک وباء نے تا حال 60ہزار سے زائد امریکیوں کی جانیں لے لی ہیں
امیداور ناامیدی کی کیفت مبتلا امریکی شہری حصول روزگارکیلئے سراپا احتجاج
واشنگٹن 30 اپریل(سیاست ڈاٹ کام) کرونا وائرس کا آسیب جب کہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، مختلف ریاستوں کے گورنر وائرس کی تباہ کاریوں اور اس کے اقتصادی اثرات کے درمیان ایک لکیر کھیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس دورانامریکی فیڈرل ریزرو کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب امریکی معیشت پر بہت برا اثر پڑ ہے اور اس سے بھی بدترین وقت ابھی اس کا منتظر ہے۔ان خبروں کے درمیان کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران امریکا کی مجموعی پیداوار میں سب زیادہ گرواٹ درج کی گئی ہے، امریکی فیڈرل ریزرو نے معاشی طور پر مزید برے وقت کے لیے متنبہ کیا ہے۔ امریکا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر سب سے بڑی معیشت کی ترقی 4.8 فیصد کی سالانہ شرح سے کم ہوتی جارہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے عوام پر گھروں تک محدود رہنے سے متعلق جو پابندیاں عائد ہیں وہ 30 اپریل جمعرات سے ختم کی جا رہی ہیں اور اس میں مزید توسیع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے یہ پابندیاں گزشتہ 45 روز سے نافذ ہیں اور اس سے متعلق ریاستوں کو گائیڈ لائنزجاری کی جائیں گی تاکہ جو ریاستیں معیشتوں کو کھولنا چاہتی ہیں وہ ایسا کرنے کی مجاز ہوں۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے بندش کی وجہ سے جس طرح معیشت برباد ہوئی ہے اور بیروزگاری میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے، اس کے پیش نظر بعض امریکی ریاستوں میں اب کاروبار پر بندش کو آہستہ آہستہ نرم کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ گرچہ اس بارے میں تشویش اپنی جگہ موجود ہے کہ وائرس کے کیسز میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔واضح رہ کہ امریکہ میں 60 ہزار سے زیادہ لوگ اس بیماری کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں اور تقریباً دس لاکھ کو یہ انفیکشن کا شکارہیں۔ اس کے اقتصادی اثرات کے نتیجے میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ امریکی اب تک روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس دوہری پریشانی نے عہدیداروں کے لئے نہایت پس و پیش کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے اور وہ عوامی صحت عامہ اور لاک ڈاون کی شدید اقتصادی قیمت کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔امریکی ریاست جارجیا نے کاروبار کو کھولنے کے لئے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ تاہم، کرونا وائرس کا مہیب سایہ لوگوں کا اب بھی پیچھا کر رہا ہے
اور انھیں اندیشہ ہے کہ اقتصادی بدحالی سے نمٹنے کے لئے قبل از وقت کئے جانے والے اقدامات اس مہلک وائرس کے مزید پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ایسے میں جب کاروبار کو کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جانز ہاپکینز یونیورسٹی کے ڈاکٹر جیسن فارلے نے خبردار کیا ہے کہ اس سے ایسے حالات بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے جن میں انسانی زندگیوں کا زیاں ہوسکتا ہے اور ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔اسی دوران امریکہ میں بہت سے لوگ جو اپنے کام پر جانے کے خواہش مند ہیں مظاہرے کر رہے ہیں۔ تاہم، رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کاروبار پر جاری بندش اور بڑے اجتماعات پر پابندی کے لئے زبردست حمایت پائی جاتی ہے، تاوقت کہ وائرس کا موثر علاج اور ٹیکہ دریافت نہیں کرلیا جاتا۔وینڈر بلڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں متعدد امراض کے پروفیسر ڈاکٹر ویلیم شیفنر کے مطابق صورتحال ایک نازک توازن برقرار رکھنے کے مترادف ہے۔ نیویارک میں جو امریکہ میں کرونا کی وبا کا مرکز رہا ہے، گورنر اینڈریو کومو کہتے ہیں کہ یہ کام مرحلہ وار کئے جانے کا متقاضی ہے۔بہرحال، جبکہ بعض کاروبار کھلنا شروع ہوئے ہیں، بہت سے دوسرے کاروبار وائرس کی وجہ سے مجبورا ً بند کرنا پڑے ہیں، جن میں گوشت کی پیکنگ کی صنعت شامل ہے، جس کے نتیجے میں خوراک کی سپلائی میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس تمام منظر نامے میں امیدی اور ناامیدی کے درمیان کی کیفیت کب تک جاری رہے گی، اس کی پیش گوئی کرنا ابھی مشکل ہے-