ایم ڈی رتنا کمار
تلنگانہ اور آندھراپردیش کے سیاسی حلقوں میں اس بات کی قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ ریاست تلنگانہ کی ریاست میں چندرابابو نائیڈو کی تلگودیشم پھر سے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں یہ کہا جارہا ہے کہ جی ایچ ایم سی انتخابات سے تلگودیشم ریاست تلنگانہ میں سرگرم ہوجائے گی کیونکہ چندرابابو نائیڈو چاہتے ہیں کہ تلنگانہ میں تلگودیشم کی موجودگی کا ہر حال میں احساس دلایا جائے ۔ چندرابابو نائیڈو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح آندھراپردیش میں بی جے پی اور فلم اداکار پون کلیان کی جنا سینا کے ساتھ اتحاد نے اُنھیں اور اُن کی پارٹی کو اقتدار دلایا اسی طرح تلنگانہ میں بھی وہ بی جے پی کے ساتھ ملکر نہ صرف تلگودیشم کی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں بلکہ اقتدار بھی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ جہاں تک ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کے میدان میں اُترنے کے منصوبوں کا سوال ہے اس بارے میں سب سے زیادہ اگر کوئی فکرمند ہے تو وہ بی آر ایس سربراہ اور سابق چیف منسٹر کے سی آر ہیں ۔ کے سی آر نئی ریاست کی تشکیل کے بعد دس برسوں تک ملک کی اس کم عمر ریاست کے چیف منسٹر رہے ۔ 2023 ء کے اسمبلی انتخابات میں اُنھیں کانگریس کے مقابلہ غیرمتوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ 2023 ء کے اسمبلی انتخابات میں ٹی ڈی پی نے حصہ لینے سے گریز کیا ۔ ان انتخابات میں کانگریس کو کامیابی اور بی آر ایس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ ریاست کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو تلنگانہ میں اپنی پارٹی کے مستقبل کو لیکر منصوبے بنارہے ہیں جس کے نتیجہ میں بی آر ایس اور اُس کی قیادت فکرمندی کا شکار ہوگئی ہے ۔
بی آر ایس قیادت کو فکر ہے کہ اگر تلگودیشم تلنگانہ میں متحرک ہوجاتی ہے تو اس سے ووٹوں کی تقسیم ہوگی اور اس کا راست فائدہ بی آر ایس کی مخالف جماعتوں کو ہوگا ۔ بی آر ایس کارکنوں میں اس تعلق سے پائی جانے والی تشویش کے پیش نظر چندراشیکھر راؤ نے کہا کہ تلگودیشم سربراہ این چندرابابو نائیڈو تلنگانہ کی سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ انھوں نے تلنگانہ کے عوام پر زور دیا کہ وہ چندرا بابو نائیڈو کے داخلہ کو روکیں ۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ این ڈی اے ، بی جے پی ، ٹی ڈی پی اور جنا سینا پر مشتمل ہے اور ان تینوں جماعتوں نے پڑوسی ریاست آنداھراپردیش میں متحدہ طورپر وائی ایس جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر سی پی کے خلاف مقابلہ کیا اور شاندار کامیابی حاصل کی ۔ اسمبلی اور پارلیمانی دونوں انتخابات میں این ڈی اے کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ چندرا بابو نائیڈو وہی فارمولہ ریاست تلنگانہ میں آزمانا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ تلگودیشم آندھراپردیش میں خوش ہے ساتھ ہی وہ تلنگانہ میں اپنی شناخت کو ہر حال میں بچانا چاہتی ہے کیونکہ ماضی میں اس نے تلنگانہ میں شاندار مظاہرہ کیا ۔
تلنگانہ میں ہی 43 سال قبل ٹی ڈی پی کا جنم ہوا اور این ٹی راما راؤ کی قیادت میں تلگودیشم نے اپنے قیام کے ساتھ ہی مثالی کامیابی حاصل کی ۔ جس وقت تلگودیشم نے کانگریس کو آندھراپردیش میں بڑی شکست سے دوچار کیا ، چندرا بابو نائیڈو کو کانگریس امیدوار کی حیثیت سے ضلع چتور کے اسمبلی حلقہ چندراگری سے شکست ہوئی تھی جس کے بعد انھوں نے کانگریس کو خیرباد کہہ کر اپنے خسر این ٹی راما راؤ کی تلگودیشم میں شمولیت اختیار کی اور بہت جلد این ٹی آر کا اعتماد حاصل کرلیا اور وہ تلگودیشم کے جنرل سکریٹری بنادیئے گئے ۔
اور جب پارٹی میں داخلی بغاوت کے ذریعہ این ٹی آر کو اُن کے وزیر فینانس این بھاسکر راؤ نے 1984 ء میں اقتدار سے بیدخل کیا تب چندرابابو نائیڈو نے تلگودیشم ارکان اسمبلی کے مخالفین کی جانب سے شکار کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ وہ بغاوت اندرا گاندھی کی زیرقیادت کانگریس کی مدد سے کی گئی تھی۔ این ٹی آر کانگریس کے کٹر حریف بن گئے کیونکہ آندھراپردیش میں کانگریس کی پہلی شکست کے وہ ذمہ دار بن گئے ۔ اقتدار سے این ٹی آر کی بیدخلی نے ملک بھر میں ساری اپوزیشن کواندرا گاندھی کے خلاف متحد کیا ۔ ایک ماہ بعد 16 ستمبر 1984 ء کو این ٹی آر کی اقتدار پر بحالی عمل میں آئی ۔ اس دوران این ٹی آر کے پاس چندرابابو نائیڈو کا اچھا امیج بنا خاص طورپر نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون میں ارکان اسمبلی کی پریڈ کے بعد تو این ٹی آر کی نظروں میں بابو کی قدر و منزلت بڑھ گئی اور اس کے باعث چندرابابو نائیڈو کے اختیارات میں مزید اضافہ ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی بغاوت کے 11 سال بعد 1995 ء میں این ٹی آر کے ارکان خاندان کی تائید و حمایت سے چندرا بابو کی دوسری بغاوت کامیاب رہی ۔
بہرحال ! اب تلگودیشم ، تلنگانہ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی ہے جو اس کی ماتر بھومی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ این ٹی آر نے بلا لحاظ ذات پات تمام تلگو عوام کے لئے پارٹی قائم کی تھی ۔ این ٹی آر کی قیادت میں تلگودیشم تمام تلگو گروہوں کی سیاسی جماعت تصور کی جاتی تھی ۔ ٹی ڈی پی کے ساتھ ہی آندھراپردیش میں ایک اور طاقت کا مرکز اُبھر کر سامنا آیا ۔ کماؤں اور ریڈیوں نے برسوں آندھراپردیش میں حکومت کی لیکن 2014 ء میں علٰحدہ ریاست تلنگانہ کے بعد ریاست کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی اور ویلما ذات سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی تلنگانہ کی جملہ آبادی کا صرف ایک فیصد ہے جبکہ ریڈی اور کما جملہ آبادی کا 7 تا 10 فیصد حصہ ہے دوسری طرف ریاست تلنگانہ میں پسماندہ طبقات کی مردم شماری ؍ ذات پات پر مبنی جو سروے کیا گیا اس میں بی سیز کی آبادی حکمراں ریڈی اور کما طبقات سے بہت زیادہ ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی میں بی سیز کی نشستیں کتنی ہوں گی ۔ جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے وہ تلنگانہ والوں اور اُن کے جذبات پر انحصار کئے ہوئے ہے ۔ وہ ریاست میں مخالف آندھرا جذبات بھڑکانے میں مہارت رکھتی ہے چنانچہ بی آر ایس کی قیادت نے تلنگانہ کے عوام سے کہا کہ وہ چندرا بابو نائیڈو کو مسترد کردیں کیونکہ وہ تلنگانہ میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے بالواسطہ طورپر یہاں حکمرانی کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ خاص طورپر 2018 ء کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر تلگودیشم اور اُس کے سربراہ نے یہ کوشش کی تھی لیکن 2018 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے سی آر کی توقعات کے عین مطابق رہے ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ کے سی آر نے اپنی مہم میں چندرابابو نائیڈو پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی ۔ دوسری طرف صرف اور صرف بی آر ایس حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے مقصد سے چندرا بابو نائیڈو نے 2023 اسمبلی انتخابات میں مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا اس طرح انھوں نے کانگریس کو تلگودیشم کے ووٹوں کی باآسانی منتقلی کی راہ ہموار کی ۔
آپ کو بتادیں کہ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد جو پہلے انتخابات ہوئے تھے ان میں 119 حلقوں میں سے تلگودیشم کو 15حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی تھی اس کی وجہ حیدرآباد اور رنگاریڈی کے اطراف و اکناف رہنے والے غیرمقامی رائے دہندے تھے جو تلگودیشم کے حامی تھے ۔ ان لوگوں نے تلگودیشم کی بھرپور تائید کی ۔ دیہی تلنگانہ میں تلگودیشم کو صرف دو حلقوں میں کامیابی ملی لیکن بی آر ایس نے تلگودیشم کے ارکان اسمبلی کو بی آر ایس میںشامل کرواکر ہی دم لیا ۔ 2018 ء میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تھے چندرا بابو نائیڈو تلنگانہ میں تلگودیشم کے اُمور پر زیادہ توجہہ نہیں دے سکے ۔ اُنھیں آندھراپردیش میں اپنی پارٹی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ اب آندھراپردیش کی سیاست چندرابابو نائیڈو کے کنٹرول میں ہے جیسے کہ وہاں کے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے نے 175ء میں 164حلقوں میں شاندار کامیابی حاصل کی چنانچہ بابو اب تلنگانہ میں این ڈی اے کا وہی تجربہ آزمانا چاہتے ہیں ۔ تلنگانہ میں بی جے پی ایک طاقتور پاٹی بن کر اُبھر رہی ہے اگر تلنگانہ میں چندرابابو نائیڈو کا یہ تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو آندھراپردیش کے اگلے اسمبلی انتخابات میں اس اتحاد کے سلسلہ کو جاری رکھنے کیلئے ایک حوصلہ عطا کرے گا ۔
کے سی آر فی الوقت کافی فکرمند ہیں کیونکہ ان کے بیٹے اور بیٹی کے خلاف مقدمات کے بعد ان کی شبیہ ضرور دغدار ہوئی ہے۔ وہ اپنی شبیہ بہتر بنانے میں جدوجہد کررہے ہیں ۔ اپنے انتخاب کو ایک سال ہونے کے باوجود وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت سے گریز کررہے ہیں ۔ اُنھیں قائد اپوزیشن کی حیثیت سے منتخب بھی کیا گیا ، اُنھیں کئی ایک مشکلات کا سامنا ہے ۔ اگر ٹی ڈی پی این ڈی اے کے ذریعہ تلنگانہ کی سیاست میں داخل ہوتی ہے تو ریاست میں سیاسی توازن یا حساب کتاب تبدیل ہوسکتا ہے اور بی آر ایس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور پھر ریاست میں کانگریس اور این ڈی اے کے درمیان راست مقابلہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ان حالات میں ایسا لگتا ہے کہ ٹی ڈی پی کو تلنگانہ میں داخل ہونے سے کے سی آر روکنا چاہتے ہیں ۔