روش کمار
فریدہ آباد میں ایک ہندو نوجوان کو گاؤ رکھشکوں نے جانوروںکی اسمگلنگ کے شک میں اور مسلمان ہونے کے شک میں گولی مارکر قتل کردیا ۔ اس واقعہ نے گاؤ رکھشکوں کی درندگی کو پھر سے منظر عام پر لایا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہریانہ پولیس بی جے پی کی اس زیراقتدار ریاست میں مقتول طالبعلم آرین مشرا کے قاتلوں کو واقعی سزا دے گی یا پھر انہیں اسی طرح آزاد کردے گی جس طرح بے قصور مسلم نوجوانوں کے قتل / ہجومی تشدد میں مسلم نوجوانوں کے قتل سے جڑے واقعات میں ہوتا آیا ہے ۔ فریدہ آباد میں 12 ویں جماعت کے ایک طالبعلم آرین مشرا کا قتل ہوا ہے ۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بات آئی ہے کہ گاؤ رکھشکوں نے آرین مشرا کو گاؤ اسمگلر سمجھ لیا اور گولی چلادی ۔ اخبارات میں بھی یہی سب شائع ہوا ہے لیکن واقعہ کے دس دن بعد پولیس نے اسے منظر عام پر کیوں نہیں لایا ؟ جب پریس کانفرنس ہوئی تب اسی پریس کانفرنس میں پولیس نے ان کی تنظیموں کا نام کیوں نہیں لیا ۔ ان کے کس کے ساتھ سیاسی تعلقات ہیں ان کا نام کیوں نہیں لیا ۔ یہ /23 اگست کی رات کا واقعہ ہے ۔ /3 ستمبر کو پولیس پریس کانفرنس کرتی ہے اور اس کے پاس ان 5 ملزمین کے تنظیموں کے نام ، تعلقات اور تنظیموں کے کام کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہیں ۔ دس دن گزرگئے پولیس کے پاس اتنی بھی معلومات نہیں کہ یہ گاؤ رکھشک ہیں ۔ ان کے تنظیم کا نام کیا ہے ۔ کیا اس کیس میں پولیس دباؤ محسوس کررہی ہے ۔ پولیس کا جواب تو یہی ہوگا کہ ہم دباؤ میں تو کام کرتے نہیں لیکن اسی پولیس نے ان ملزمین کے تنظیم کا نام نہیں لیا ہے ۔ 5 ملزمین کو آرین مشرا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ سب کے چہرے پر نقاب ڈالی گئی تھی وہ بالکل سفید ہے نئی لگ رہی ہیں قانونی عمل کا حصہ ہے ۔ چہرہ اس قدر چھپا ہوا ہے کہ کوئی چاہے بھی تو سوشل میڈیا میں موجود ان کی تصاویر سے میل نہیں کھاسکتا ، آپ ان کے نام جانتے ہیں ۔ انیل کوشک ، ورون پوربھ ، کرشن اور آدیش مگر ان کے چہرہ نہیں جانتے یہ نابالغ بھی نہیں اگر ان کا چہرہ برسرعام بے نقاب کیا جاتا تو کئی لوگ آگے پیچھے کا ریکارڈ نکال ہی دیتے ۔ یہ تو عام طور پر کسی بھی معاملہ میں ہوجاتا ہے لیکن اب جبکہ ان کاچہرہ نقاب کے پیچھے ہے تو آپ نقاب دیکھئے اور یہ نقاب کے پیچھے سے آپ کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ کیسے پہچانوگے ہم نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے یہ تو جان سکتے ہو لیکن ہم کون ہے یہ پتہ ہی نہیں چلے گا ۔ اب سب کچھ پولیس پر منحصر ہے کہ وہ گاؤ اسمگلر ہیں یا نہیں ۔ گاؤ اسمگلرس پکڑنے کا لائسنس انہیں کس نے دیا ۔ ان کے سنگٹھن (تنظیم) کا نام کیا ہے ۔ تنظیم کے رکن کے ناطے یہ کن کن لیڈروں سے ملتے ہیں ۔ چیف منسٹر سے ملتے ہیں ، وزراء سے ملتے ہیں ، رکن پارلیمنٹ سے ملتے ہیں یا رکن اسمبلی سے ملتے ہیں اور انہیں رات کو گاؤ اسمگلنگ روکنے کا لائسنس کس نے دیا ۔ ان کے پاس بندوق کہاں سے آئی ۔ اس لئے جب پولیس نے کہا ہم سب ہی معاملوں کی جانچ کررہے ہیں تب شک گہرا ہوا اور لگا کہ اس پر ایک ویڈیو ضرور بنانا چاہئے کیونکہ پولیس بہت ہوشیار ہوتی ہے ۔ یہ آفیسر بہت قابل ہوتے ہیں ان کیلئے یہ معلوم کرنا کوئی بڑی بات نہیں کہ جو ان کی تحویل میں ہیں ان کا تعلق کس کس سے ہے ۔ گاؤ رکھشا کے نام پر ان لوگوں نے کونسی تنظیم بنائی ہے اور یہ کیا کام کرتے ہیں ؟ ان کا پرانا ریکارڈ کیا ہے ؟ سب پتہ کرسکتے ہیں ۔ چرخی دادری میں اسی طرح کے الزام میں صابر کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا گیا ۔ معاشرہ کو اس کی موت سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آرین مشرا کو گاؤ اسمگلنگ کی غلط فہمی میں ماردیا گیا ، اس سے ہنگامہ مچ سکتا تھا ۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا تھا ۔ ایسا کچھ لوگوں کا ماننا ہے ۔ میرا بالکل نہیں ماننا ہے ۔ میں بالکل نہیں مانتا کہ آرین مشرا کے قتل کو لیکر فریدہ آباد کی عوام میں کسی قسم کی بے چینی پھیلی ہوگی کیا میرا اندازہ صحیح ہے وقت بتادے گا کیوں میڈیا میں بار بار چل رہا ہے کہ گاؤ اسمگلر سمجھ کر آرین کو ماردیا گیا ۔ میڈیا میں یہ نہیں چل رہا ہے کہ پولیس نے پریس کانفرنس میں یہ واضح کیوں نہیں کیا ۔ انڈیا ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے کہا ہے کہ 5 لوگوں کو حراست میں بھیجا گیا ہے ۔ ایکسپریس نے لکھا ہے کہ /23 اگست کو رات پلوال کے پاس آرین مشرا اپنی گاڑی سے نکل کر دوستوں کی SUV میں بیٹھتے ہیں Live for Nation نامی تنظیم سے جڑے کلیدی ملزم انیل کوشک اور دوسروں کو یہ خبر ملتی ہے کہ اس علاقہ میں Duster گاڑی میں گاؤ اسمگلر بیٹھے ہیں ۔ یہ خبر کہاں سے ملتی ہے ، کون دیتا ہے ، ان کا نٹ ورک کیا ہے ؟ ایکسپریس نے لکھا ہے کہ ملزمین گاڑی کا تعاقب کرنے لگتے ہیں اور چلتی گاڑی پر گولیاں چلاتے ہیں ۔ دو گولیاں آرین کو لگتی ہیں اور آرین کی موت ہوجاتی ہے ۔ اس کے غمزدہ باپ نے ایف آئی آر درج کروائی ہے ۔ گاؤ اسمگلرس کی بات نہیں ہے کیونکہ باپ کو لگا کہ دوستوں سے دشمنی کا معاملہ ہے ۔ قتل کی اور دوسری دفعات کے تحت FIR درج ہوئی ہے ۔ CCTV کی جانچ کے دوران گاؤ رکھشکوں کا کردار بے نقاب ہوا ہے ۔ ایک فوٹیج آیا ہے جس میں لال رنگ کی ڈسٹر گاڑی کا گاؤ رکھشک سویفٹ کار سے تعاقب کررہے ہیں ۔ ہندوستان اخبار کی سرخی بھی یہی کہتی ہے کہ گاؤ اسمگلر سمجھ کر قتل کیا گیا آور آتشیں اسلحہ سے گولی ماری گئی تھی لکھا ہے کہ ملزمین نے تسلیم کیا ہے کہ غلط فہمی میں پیچھا کیا گیا ۔ ہندوستان کی رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ پولیس ذرائع کے مطابق ملزمین نے پوچھ تاچھ میں بتایا کہ /23 اگست کی رات انہیں ایک مخبر سے یہ اطلاع ملی تھی کہ ڈسٹر اور فارچونر کار سوار کچھ گاؤ اسمگلرس شہر میں گھوم کر جائزہ لے رہے ہیں ۔ ساتھ ہی جہاں انہیں جانور مل رہا ہے کنٹینر منگواکر اسے اٹھارہے ہیں ۔ گرفتار ملزمین نے شہر میں ان گاؤ اسمگلرس کی تلاش کررہے تھے ۔ اس دوران انہیں پٹیل چوک پر ایک ڈسٹر کار دکھائی دی ۔ ملزمین کار ڈرائیور کو روکنے کیلئے کہا لیکن کار کی رفتار بڑھ گئی ۔ اس شبہ میں ملزمین نے واردات انجام دی ۔ لال رنگ کی ڈسٹر کار میں آرین سوار تھا جب اسے گولی لگی ایف آئی آر کے مطابق اس کار میں ہرشا گلاٹھی ، سجاتا گلاٹھی ، شہتکی ، ساگر گلاٹھی اور کیرتی شرما بھی تھے مگر گولی لگی آرین کو جیسا کہ آرین کے والد نے میڈیا کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے ۔ تاہم بی جے پی کی حکومت میں عوام ایک دم ٹھیک رہتی ہے تھیٹککر رہتی ہے ۔ سڑکوں پر نہیں آتی کب بلڈوزر چل جائے کسے پتہ اور الٹا کیس بھی ہوسکتا ہے ۔ ایک کرائم رپورٹر کی طرح سوچیں تو سوال ہی سوال ہیں ۔ سویفٹ میں سوار 5 نوجوان کونسا ایسا کام کرتے ہیں ؟ کیا یہ پہلے بھی گاؤ اسمگلنگ کو روکنے رات کو نکلتے تھے ۔ ان کا تعلق کس تنظیم سے ہے ۔ اگر آرین مشرا کو گاؤ اسمگلر سمجھ بھی لے تو کیا انہیں اس بات کا حق ہے کہ گاؤ رکھشک بن کر گولی چلادے ۔ اس لئے آرین مشرا کی موت نے گاؤ رکھشا کی اس بوگس سیاست کی پول کھول دی ہے ۔ اب دیکھئے ہاپور میں قاسم کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا اور الزام عائد کیا کہ وہ گاؤ اسمگلنگ کررہا تھا لیکن جب عدالت میں معاملہ پہنچا تو ہجوم کی بات غلط نکلی اور دس لوگوں کو عمر قید کی سزا ہوئی تو یہ پیاٹرن ہے کہ گولی چلادو اور بعد میں گاؤ اسمگلنگ بتادو ۔ ہریانہ کے دادری میں صابر کو تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا ۔ امیر الدین ملزمین کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا ورنہ وہ بھی ان کے شکنجہ میں آہی گیا تھا ۔ ابھیشک عرف شاکا ، رویندر عرف کالیا ، موہٹ ، کنول جیت ، ساحل عرف پپی جیل میں ہے ۔ ابھی یہ خبر چل رہی تھی کہ انہیں کون روک سکتا ہے ، معاملہ سنگین ہے اسی طرح کا آتا ہے ۔ لیکن یہاں چیف منسٹر سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آرین مشرا کو گاؤ اسمگلر سمجھ کر مارا گیا کیا تب بھی آپ نہیں روک سکتے کیا آپ نہیں بتاسکتے کہ گاؤ رکھشک کے نام پر نکلنے والے یہ لوگ کون ہیں ۔تب ہی تو میں سوال کررہا ہوں کہ فریدہ آباد کی پولیس کو دس دن بعد بھی پتہ نہیں کہ ان کا کس تنظیم سے تعلق ہے اور اس تنظیم کا نام کیا ہے ؟ یہ لوگ کون ہے جو رات کو نکلتے ہیں اور دوسروں کی کاروں کا تعاقب کرتے ہیں کیا میڈیا نے کہانی گڑھی ، غلط رپورٹنگ کی یا پولیس اب کہانی بنارہی ہے ۔