گجرات پر مودی حکومت کی مہربانی

   

راج دیپ سردیسائی
ملک بھر میں ریاست گجرات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً ملک کے سب سے طاقتور ترین سیاست داں سے لے کر دنیا کے دولت مند ترین شخصیتوں میں سے ایک کا تعلق گجرات سے ہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کا متمول طبقہ گجرات میں رہتا ہے۔ ملک کے طاقتور و بااثر سیاست داں بھی اسی ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک میں بیرونی کمپنیوں کے تعاون و اشتراک باالفاظ دیگر مشترکہ وینچرس بھی اسی ریاست گجرات میں قائم کئے جارہے ہیں۔ غرض پچھلے دو دہوں سے گجرات نے زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی ہے (یہ اور بات ہے کئی ایک محاذ پر ریاست گجرات کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا) جب سے نریندر مودی عہدۂ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے اور قومی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگے ہیں تب سے ایسا لگتا ہے کہ ہر ترقیاتی پراجیکٹ گجرات کے حق میں جارہا ہے اور ہر راستہ گاندھی نگر کی طرف جارہا ہے اور گاندھی نگر سے ہوتے ہوئے ملک کی دوسری ریاستوں کو پہنچ رہا ہے۔ ان تمام چیزوں سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرکز میں برسراقتدار گجرات کے سیاسی قائدین اور بیورو کریٹس (اعلیٰ عہدیدار) کا پالیسی سازی کے عمل میں غیرمتناسب عمل و دخل اور اثرو رسوخ ریاستوں پر اثرانداز ہونے والے اہم فیصلوں میں جانبداری کا باعث بنتا ہے۔ اس کا جواب فاکسکان ۔ ویدانتا کے 22 ارب ڈالرس مالیتی سیمی کنڈکٹرس پراجیکٹ سے بخوبی مل جاتا ہے۔ یہ پراجیکٹ گجرات میں قائم کیا جارہا ہے جبکہ مہاراشٹرا، کرناٹک اور تلنگانہ جیسی ریاستوں نے مذکورہ پراجیکٹ کو اپنی ریاست میں شروع کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن سارا پراجیکٹ گجرات کے حق میں گیا۔ اس پراجیکٹ کے گجرات کو ملتے ہی مہاراشٹرا کے عوام اور سیاسی پارٹیوں میں برہمی کی لہر پیدا ہوگئی حالانکہ جاریہ سال جولائی کے آخری ہفتہ میں چیف منسٹر مہاراشٹرا ایکناتھ شنڈے نے اسمبلی کو آگاہ کیا تھا کہ ویدانتا ۔ فاکسکان کا مشترکہ پراجیکٹ مہاراشٹرا میں قائم کیا جائے گا۔ جس سے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار فراہم ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو گجرات میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور مودی سے لے کر امیت شاہ یہ نہیں چاہیں گے کہ وہاں کانگریس یا پھر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کوئی موقع مل پائے۔ اس پراجیکٹ کے حاصل کرنے کے بعد اب بی جے پی گجرات یونٹ کے لیڈران کے ساتھ مودی۔ امیت شاہ رائے دہندوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم نے گجرات کو 22 ارب ڈالرس کا پراجیکٹ دلایا ہے جس سے ہزاروں بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو پہلے ہی سے گجرات اور مہاراشٹرا کے درمیان مختلف اُمور کو لے کر بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں اور دونوں ریاستوں کے تعلقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں۔ اب چونکہ مودی ۔ امیت شاہ کے باعث ویدانتا پراجیکٹ گجرات کے حق میں گیا ہے۔ اس لئے زخم پھر تازہ ہوجائیں گے۔ 1960ء کے دہے میں دو مغربی ریاستوں کی تشکیل کا عمل تلخ تجربات سے گذرا تھا۔ یہاں تک کہ قدیم بمبئی اسٹیٹ کی جغرافیائی تقسیم کے نتیجہ میں خونریز تصادم کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔ اکثر گجراتیوں کا دعویٰ ہے کہ گجراتی تاجرین، صنعت کاروں نے ممبئی کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا اور دونوں ریاستوں کی قیادتوں کے درمیان بھائیوں کے درمیان پائی جانے والی رقابت یا مسابقتی دوڑ ہمیشہ سے رہی ہے جن میں مہاراشٹرا کو ایک لسانی اور علاقائی بڑے بھائی کی حیثیت ہے اور اس کے دعوؤں کی جھلک ہم نے سمیوکتا مہاراشٹرا تحریک میں دیکھی ہے۔ بعد میں شیوسینا نے مہاراشٹرا مرہٹوں کا جیسے نعرے لگائے۔ گزشتہ دہے میں سیاسی و اقتصادی طور پر حالات یکسر بدل گئے۔ جب جاریہ ماہ کے اوائل میں اپنے دورۂ ممبئی کے موقع پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ممبئی کے شہریوں پر شیوسینا کو شکست دینے کیلئے زور دیا تب شاہ کے بیان کو ایک زخمی شیر پر چھری چلانے کے مترادف سمجھا گیا۔ واضح رہے کہ عنقریب ممبئی بلدیہ کے انتخابات ہونے والے ہیں اور اس سے پہلے ہی مودی۔ امیت شاہ نے مہاراشٹرا میں شیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس پر مشتمل اتحادی حکومت کو نہ صرف زوال سے دوچار کردیا بلکہ ٹھاکرے خاندان اور شیوسینا میں بغاوت کی حوصلہ افزائی کی۔ اس سے عوام میں یہ تاثر گیا کہ مہاراشٹرا کا ریموٹ کنٹرول گجرات کی جوڑی نمبر 1 کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ویدانتا پراجیکٹ مہاراشٹرا کی بجائے گجرات کی جھولی میں جانے کے ٹائمنگ پر بھی کئی سوالات اُٹھ سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مہاراشٹرا ملک کا اقتصادی مرکز اور معاشی دارالحکومت کہلاتا ہے اور گجرات بتدریج اپنے بڑے پڑوسی کو اس معاملے میں چیلنج کرتا جارہا ہے اور حالیہ برسوں میں اس نے خود کو سرمایہ کاری کی ترجیحی منزل کے طور پر پیش کیا۔ سال 2020-21 ء میں گجرات کو ملک کی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ بیرونی راست سرمایہ کاری حاصل ہوئی جبکہ مہاراشٹرا جو پہلے نمبر پر ہوا کرتا تھا۔ دوسرے نمبر پر آگیا۔ سال 2021-22ء میں گجرات 6 ویں مقام پر آگیا اور کرناٹک نے پہلا مقام حاصل کرلیا لیکن یہ ایک عارضی گراوٹ ہوسکتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو گجرات کی سیاسی برتری اور گجراتی قیادت کی ترقی نے ریاست کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان حالات میں مہاراشٹرا جیسی ریاستوں کو خود محاسبہ کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر 1990ء میں انران پاور پراجیکٹ بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات کی نذر ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پر دوبارہ بات چیت ہوئی اور پھر مہاراشٹرا میں صنعتوں کی ساکھ کا سنگین بحران پیدا ہوا۔ حالیہ عرصہ کے دوران انفراسٹرکچر کے کئی کلیدی پراجیکٹس میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ ریاستوں کو سرمایہ کاری کیلئے معروفیت پر مبنی اقتصادی پہلو کے مطابق مسابقت کرنی چاہئے۔ اپوزیشن زیراقتدار ریاستوں کو شکایت ہے کہ مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ نوٹسیں جاری کرتے ہوئے ان کی حکومتیں کو غیرمستحکم کی جارہی ہیں اور بی جے پی اپوزیشن سے پاک بھارت کو یقینی بنانے کی خواہاں ہے جس کا مقصد صرف اور صرف بی جے پی کی جانب سے اپنی برتری قائم کرنا ہے۔ بی جے پی ایک طویل عرصہ تک اپنی اجارہ داری اور برتری قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ دوسری ریاستوں کے صدر مقامات کی بہ نسبت عالمی لیڈروں کے دورۂ گاندھی نگر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بے شک بحیثیت چیف منسٹر مودی گجرات کے سی ای او تھے اور بحیثیت وزیراعظم وہ ٹیم انڈیا کے کپتان ہیں۔ کاش! بی جے پی قائدین اس بات کو سمجھ پاتے۔