گرمجوشی سے زخموں تک ہندوستانی سیاست میں باہمی احترام کے جذبہ کا زوال

   

این سرینواس راؤ
پی وی نرسمہا راؤ کے 21 جون 1991 کو ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لینے سے قبل ان کے پیشرو وی پی سنگھ کی جانب سے گرمجوشی سے استقبال کی بلیک اینڈ وائیٹ تصویر صرف تاریخ کا ایک حصہ ہی نہیں ہے ۔ یہ ایک دور کی تصویر ہے جب سیاسی مخالفین میں ایک دوسرے سے سے گرمجوشانہ تعلقات کی اہلیت رکھتے تھے ۔ جب اقتدار کی منتقلی صرف ایک دستوری رسم نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ ایک مہذب اور معزز اظہار احترام کا ذریعہ بھی ہوا کرتا تھا ۔ یہ عزت و احترام عہدہ اور فرد دونوں کی ہوا کرتی تھی ۔ مسکراہٹیںاور ہاتھوں کا بجنا ‘ چال ڈھال یہ سب کچھ خاموش رویہ کو ظاہر کرتے تھے جو یہ تاثر دیتا تھا کہ ہم نظریاتی طور پر اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن قوم پرستی کی وسیع تر ذمہ داری کے پابند بھی ہیں۔
تیزی سے آج کی صورتحال کا جائزہ لیں تو اس طرح کے مناظر بہت ہی مختلف ہوگئے ‘ یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ سیاسی اختلاف آج کے دور میں شبہ ‘ دشمنی اور صریح مخاصمت میںڈوب گئی ہے ۔ مخالفین شاذ و نادر ہی ساتھ سفر کرتے نظر آتے ہیں جن کے نظریات مختلف ہوں۔ اس کے برخلاف یہ ایک دوسرے کو شمن کی طرح رسواء کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی میدان کو ایک ایسے کھیل میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں کسی بھی قیمت پر کامیابی اور جیت کی ہی حرص و ہوس ہوتی ہے اور مخالفین کو فناء کردینے کا جذبہ قوم کی ترقی سے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے ۔
ماضی میں یہ سب کچھ مختلف کیوں تھا ؟ : سب سے پہلے اور اہم بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین کا مقصد وسیع تر ہوا کرتا تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی ‘ پی وی نرسمہا راؤ اور وی پی سنگھ جیسے قائدین تاریخ سے واقفیت رکھتے تھے اور قیادت کی ذمہ داریوں کے احساس سے بھی واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ سیاست ہی خدمت کرنے کا ایک ذریعہ ہے صرف غلبہ پانے کا نہیں۔ ان کی شخصی خواہشات در حقیقت اداروں اور ایک دوسرے کیلئے احترام کی عکاس ہوا کرتی تھیں۔
شخصی نفرت کی بجائے نظریاتی اختلاف : تمام سیاسی قائدین پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کی شدت سے مخالفت کرتے تھے اس کے باوجود پارلیمنٹ کے باہر ایک دوسرے کے اچھے دوست ہوا کرتے تھے ۔ واجپائی اپنے مخالفین کی ستائش کرنے میں شہرت رکھتے تھے ۔ وہ ایوان کی دوسری جانب سے بھی مخالفین کی ستائش کرتے تھے اور یہ کوئی سیاسی شعبدہ نہیں تھا ۔ یہ ان کے اس یقین کا اظہار تھا کہ جمہوری مباحث کے وقار کو بحال رکھا جانا چاہئے ۔
تحمل و برداشت کا کلچر : ماضی کی سیاست در اصل تحمل کے ضابطہ کی پابند ہوا کرتی تھی اور یہ کوئی تحریری شرط نہیں تھی ۔ قائدین ایک دوسرے کی ہتک کئے بغیر اختلاف کیا کرتے تھے ۔ تقریب حلف برداری ‘ جس طرح 1991 کی ایک تصویر میں ظاہر کیا گیا ہے ‘ صرف ایک روایتی رسم نہیں تھی ۔ یہ اس بات کا مقدس اعتراف ہوا کرتا تھا کہ اقتدار منتقل ہوگیا ہے لیکن احترام مستقبل ہونا چاہئے ۔
اب اتنی نفرت کیوں بہہ رہی ہے ؟ : .1 شناخت کی سیاست کا عروج اور میڈیا کی تبدیلی : آج کی سیاست عوام کو مذہب ‘ ذات پات ‘ علاقہ واریت میں تقسیم کرنے کی وجہ سے فروغ پاتی ہے ۔ قائدین صرف اپنے حلقوں کے نمائندے نہیںرہ جاتے بلکہ وہ متحارب شناخت کے نمائندے بن جاتے ہیں۔ سوشیل اور ڈیجیٹل میڈیا اس تقسیم کو فروغ دیتا ہے اور بات چیت پر ناراضگی اور برہمی کو ہوا دی جاتی ہے ۔ .2 انتہائی مسابقتی انتخابی دنگل : چونکہ انتخابات ملک کے کسی نہ کسی حصے میںہر سال لڑے جاتے ہیں‘ سیاسی طبقہ اکثر انتخابی مہم کے موڈ میں رہتا ہے ۔ کامیابی کی بھوک ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جہاں ترغیب دینے سے زیادہ توہین آسان ہوجاتی ہے ۔ .3 بردباری کا زوال : سابقہ دہوں کی قد آور شخصیتیں ادب کی گہرائی رکھتی تھیں ان میں تحمل ہوا کرتا تھا اور تاریخ کی سمجھ رکھتے تھے۔ آج کی سیاست جارحیت کو پروان چڑھاتی ہے ۔ شور شرابہ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اتفاق رائے بنانے کی بجائے وائرل لمحات پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھاوا دیتی ہے ۔ .4 ادارہ جاتی اعتماد کا زوال : ماضی میں ادارے سیاسی جماعتوں کے درمین برج کا کام کرتے تھے چاہے وہ پارلیمنٹ ہو ‘ عدلیہ ہو یا پھر میڈیا ہوا ۔ چونکہ ان کی ساکھ اب ختم ہو کر رہ گئی ہے تو صحتمندانہ اختلاف رائے کی جگہ بھی ختم ہوگئی ہے ۔
کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے ؟ : .1 بات چیت کے کلچر کو فروغ دیا جائے : سیاسی جماعتوں کو لازمی طور پر نظریاتی تقسیم کے پار بھی بات چیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ قائدین میں رسمی اور غیر رسمی مذاکرات کے ادارہ جاتی فورمس کو مستحکم کیا جانا چاہئے اور اس کے ذریعہ مشترکہ مقصد کا جذبہ بحال کیا جاسکتا ہے ۔ .2 میڈیا اور سیول سوسائیٹی کا رول : زہر پھیلانے اور اگلنے کی بجائے میڈیا کو مہذب اور تعمیری بات چیت کے لمحات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیول سوسائیٹی کو بھی نہ صرف حکمرانی میں بلکہ سیاسی اختلاف کے لب و لہجہ پر جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔ .3 سیاست میں اقدار : انتخابی مہم اور پارلیمانی طرز عمل کیلئے ضابطہ اخلاق متعارف کروایا جانا چاہئے ۔ .4 قیادت میں رول ماڈلس : پی وی نرسمہا راؤ اور وی پی سنگھ کی تصویر جس طرح ہمیںسیاسی مسابقت میں احترام کی یاد دہانی کرواتی ہے عصر حاضر کے قائدین کو بھی مہذب رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ احترام کا جذبہ ہونا چاہئے ‘ مصافحہ کیا جانا چاہئے ‘ خیرسگالی کے الفاظ استعمال کئے جانے چاہئیں چاہے وہ علامتی ہی کیوں نہ ہوں تاہم ان کے نتیجہ میں سیاسی کلچر کی نفسیات تبدیل ہوسکتی ہے ۔
1991 کے جذبہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے پی وی نرسمہا راؤ اور وی پی سنگھ کی تصویر صرف ایک پرانی یاد نہیں بلکہ یہ ایک آئینہ ہے ۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ سیاست زہریلی ہوئے بغیر بھی جذباتی ہوسکتی ہے ۔ ظالمانہ ہوئے بغیر بھی مسابقتی ہوسکتی ہے ۔ دو مخالفین میں گرمجوشی کا لمحہ آج کے زہریلے سیاسی ماحول کے یکسر مختلف ہے ۔ اگر ماضی کے قائدین ایک دوسرے کے احترام کو سمجھنے کیلئے اپنے اختلاف سے پرے دیکھ سکتے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کے قائدین نہیں کرسکتے ۔ حقیقی چیلنج انتخابات جیتنا نہیں بلکہ باہمی احترام کے کھوئے ہوئے کلچر کو بحال کرنا ہے ۔