اردو میڈیم اسکولوں سے حکومت کا سوتیلا پن ، حالت زار کو بہتر بنانے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں
حیدرآباد ۔ 21 ۔ جون : ( سیاست نیوز) : ہماری حکومتیں ، حکومتی ادارے اور سیاستداں بالخصوص چیف منسٹر سے لے کر ارکان اسمبلی ، ارکان پارلیمان ، ارکان قانون ساز کونسل اور مقامی اداروں کے لیے منتخب ارکان سب کے سب ’ سب پڑھیں ۔ سب بڑھیں ‘ جیسے نعرے بلند ضرور کرتے ہیں لیکن عمل آوری کی بات آتی ہے تو ایسے انجان بن جاتے ہیں جیسے تعلیمی شعبہ سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو اور خاص طور پر اردو میڈیم اسکولوں کی جب بات آتی ہے تو یہ ایسے خاموشی اختیار کرتے ہیں جیسے یہ اردو میڈیم اسکولس نہیں بلکہ ان پر ایک بہت بڑا بوجھ ہو ۔ آج ایک ایسے اردو میڈیم اسکول کے بارے میں واقف کروارہے ہیں جہاں آٹھویں جماعت تک طلباء وطالبات کو زیور علم سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ اور اس اسکول میں تقریبا 300 طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس اسکول میں کسی بھی جماعت یا کلاس میں آپ کو کوئی کرسی کوئی ٹیبل اور کوئی بنچ نظر نہیں آئے گی ۔ تمام طلباء وطالبات فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ غنیمت ہے کہ فرش پر شطرونجیاں بچھائی گئیں ہیں ۔ آپ کو اس اسکول کا نام اور پتہ بھی بتادیتے ہیں دراصل یہ اردو سے حکومت اور عہدیداروں کے سوتیلا پن پر مبنی سلوک کی یہ عبرت ناک کہانی گورنمنٹ پرائمری اسکول غوث نگر I اور II بندلہ گوڑہ منڈل اردو میڈیم کی ہے اگرچہ اسکول کی عمارت ٹھیک ٹھاک حالت میں ہے لیکن پانی کا ناقص انتظام ہے ٹوٹیاں غائب ہیں ۔ دیواریں جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی ہیں ۔ ٹوٹے ہوئے دروازہ اسکول سے حکومت اور محکمہ تعلیم کی غفلت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہاں کے طلباء وطالبات نے بتایا کہ سات آٹھ برسوں سے اس اسکول کا یہی حال ہے ۔ ویسے بھی اس اسکول کی حالت زار دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اردو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے وہ اس سلوک تعصب اور جانبداری کا نتیجہ ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ ریاست تلنگانہ میں کے سی آر حکومت نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے لیکن عملی طور پر اردو اور اردو میڈیم اسکولوں کو بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ گذشتہ دس برسوں سے اردو اساتذہ کے تقررات بھی نہیں ہوئے ۔ واضح رہے کہ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں 50 اردو میڈیم ہائی اسکولس اور تقریبا 100 پرائمری اسکولس ہیں ایک ایک عمارت میں تین تین اسکولس بھی کام کررہے ہیں ۔ دس پندرہ سال قبل حالات غنیمت تھے لیکن اب تو یہ ابتر ہوچکے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ عہدیدار حکومت کی پالیسیوں پر عمل نہیں کررہے ہیں ۔ اور خاص طور پر اردو اسکولوں میں 50:1 تناسب سے اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ حالانکہ ہر جماعت کے لیے ایک ٹیچر ہونا ضروری ہے اور یہی سرکاری قاعدہ بھی کہتا ہے مثال کے طور پر 5 کلاسیس ہیں تو اس اسکول میں 5 اساتذہ ہونے چاہئے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ طلباء و طالبات کی تعداد کے لحاظ سے حیدرآباد میں اردو میڈیم اسکولس پہلے نمبر پر ہیں ۔ دوسرے نمبر پر انگریزی میڈیم اسکولس اور تیسرے نمبر پر تلگو میڈیم اسکولس ہیں ۔ لیکن اساتذہ کی تعداد اور بنیادی سہولتوں کے معاملہ میں اردو میڈیم اسکولس سب سے پیچھے ہیں ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ حکومت کے اس تکلیف دہ سلوک پر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے ۔۔