ہر خاص و عام کا لاڈلہ اور چہیتا فنکار
اکبر بن تبر کی دو فلمیں حیدرآباد نوابس 2 اور
ڈیڈی بیٹی بچاؤ مکمل ہے اور ریلیز کیلئے تیار ہے۔
حیدرآبادی فلموں کے اداکار اکبر بن تبر کو ہر خاص و عام شائقین فلم کا لاڈلہ اور چہیتا اداکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنے 13 سالہ ایکٹنگ کیریئر میں تبر نے 50 فلمیں مکمل کرلی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان میں ذرا بھی غرور نہیں ہے خوش مزاجی، اپنی کامیاب اداکاری اور کامیاب فلموں کی وجہ اپنے چاہنے والوں میں زبردست مقبولیت رکھنے کے باوجود وہ اپنے چاہنے والوں سے ملنے کے لئے وہ نہ کبھی کتراتے ہیں اور نہ منہ چھپاتے ہیں اور نہ ہی ہجوم میں عوام سے ملنے کے لئے اپنی بیزارگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں ان سے ملاقات کرنے کا اشتیاق رکھنے والوں سے وہ خود آگے بڑھ بڑھ کر ملاقات کرتے ہیں۔ ان سے باتیں کرتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ تصاویر کھنچوانے کا بھرپور موقع دیتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا بھی راز ہے اور یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے بیشمار نوجوانوں کے سیل فونس میں وہ اپنے پرستاروں کے ساتھ قید ہیں اور اسی وجہ یہ نوجوان اپنے اس چہیتے فنکار کی فلم دیکھنے سنیما گھروں کا رخ بھی کرتے ہیں۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کی اسی سادہ مزاجی کی وجہ سے قدرت بھی اکبر بن تبر پر ابتداء سے ہی مہربان رہی ہے۔ گویندا اور جانی لیور کو اپنے آئیڈیل اداکار ماننے والے اکبر بن تبر نے اسٹیج سے اپنے کیریئر کی شروعات کی اور سال 2006 میں فلم حیدرآباد نوابس کے ذریعہ سلور اسکرین پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرآبادی فلموں پر چھاگئے اور اپنے 13 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے حیدرآبادی فلموں کے علاوہ تلگو کی 14 فلموں اور کچھ بھوجپوری فلموں میں کام کرتے ہوئے اپنے فلموں کی نصف سنچری مکمل کرلی اور 50 فلموں کی تکمیل کے بعد اور بھی کئی فلمیں کررہے ہیں۔ ان کی یادگار اداکاری والی فلموں میں گلو دادا ریٹرنس، بیروزگاری، ٹائیگر سلطان، ایک تھا سردار، زبردست دل خوش، فیملی پیاک، دعوت عشق، کرشنا ومشی کے ڈائرکشن میں بنی تلگو فلم ’’پیسہ‘‘ دنیش لال یادو (نروہا) کے ساتھ بھوجپوری فلم ’’جئے ویرو‘‘ کے علاوہ اور بھی کئی قابل ذکر فلمیں کرچکے ہیں۔ فی الحال اکبر بن تبر کی بہترین اداکاری پر مشتمل فلمیں حیدرآبادی نوابس 2 اور ڈیڈی بیٹی بچاؤ ریلیز کے لئے تیار ہے جس سے انہیں زبردست توقعات ہیں۔ بہرحال جناب محمد محمود علی صاحب کے ہونہار سپوت اکبر بن تبر نے اپنے آبائی و پیدائشی محلہ قلعہ گولکنڈہ کی طرح اپنا نام بھی حیدرآباد کی تاریخ میں درج کروالیا ہے۔ ان کے متعلق یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس طرح پیاز کو ہر سالن کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح اکبر بن تبر بھی ہر حیدرآبادی فلم کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں اور اب تو وہ ہر فلمساز کی ضرورت بن گئے ہیں۔ ان کی بڑھتی مقبولیت اور زبردست فائن فالوئنگ اور عوامی چاہت کے سبب اکبر بن تبر کو ہر فلمساز اپنی فلم میں کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی دلچسپ کردار میں کاسٹ کرنا چاہتا ہے۔