گڑے مُردے اُکھاڑے جارہے ہیں

,

   

ناگپور ماڈل… اورنگ زیب کے نام پر نفرت
مودی کی آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں حاضری کی تیاری

رشیدالدین
ناگپور ماڈل۔ گجرات ماڈل کے بارے میں ہر کسی نے سنا اور دیکھا بھی ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار ملک میں ناگپور ماڈل کو ملک بھر میں دوہرانے کی تیاری میں ہیں۔ ماڈل کا ترقی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ نفرت، تشدد اور فسادات سے یہ عبارت ہے۔ اِسی ماڈل کی مارکٹنگ کرتے ہوئے ملک میں ہندوتوا کو مستحکم کرنے میں کامیابی ملی۔ گجرات دراصل نریندر مودی سے منسوب ہے اور گجرات فسادات کے داغ شاید ہی کبھی اُن کے دامن سے مٹ پائیں گے۔ آر ایس ایس نے شاید ناگپور ماڈل کو ملک میں متعارف کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ وہ نریندر مودی کا اپنے ہیڈکوارٹر میں استقبال نئے ماڈل سے کرنا چاہتے ہیں۔ ناگپور آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے باوجود اِس کے وہاں فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ اِس علاقہ کی نمائندگی پارلیمنٹ میں بی جے پی کے سینئر قائد نتن گڈکری کرتے ہیں جو پارٹی کے کٹر نفرتی طاقتوں کے لئے ناپسندیدہ ہیں۔ جس طرح اٹل بہاری واجپائی کے بارے میں مشہور تھا کہ ’’اچھے آدمی بُری پارٹی میں‘‘ ٹھیک یہی حال نتن گڈکری کا بھی ہے۔ وہ بی جے پی میں رہتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کے پیکر ہیں۔ ایک منظم سازش کے تحت گڈکری کے انتخابی حلقہ کو فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیل کردیا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آر ایس ایس نریندر مودی کا اپنے ہیڈکوارٹر میں استقبال ناگپور ماڈل کے ذریعہ کرنا چاہتی ہے۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد سے مودی اور آر ایس ایس میں دوریاں بڑھ چکی تھیں اور گیارہ برسوں میں پہلی مرتبہ مودی آر ایس ایس ہیڈکوارٹر ناگپور میں 30 مارچ کو سرسنچالک موہن بھاگوت سے ملاقات کریں گے۔ مودی کا دورہ آر ایس ایس کے آگے سرینڈر ہے یا پھر کسی حکمت عملی کی تیاری ہے۔ آر ایس ایس کو شکایت ہے کہ اُن کی اُنگلی تھام کر وزارت عظمیٰ تک پہونچنے کے بعد نریندر مودی آر ایس ایس کو آنکھیں دکھارہے ہیں۔ مودی نے آر ایس ایس کی سرپرستی کا ٹیاگ لگانے کے بجائے مودی برانڈ امیج کی دنیا بھر میں پبلسٹی کی جس سے آر ایس ایس کے مقابلہ مودی کا قد بلند دکھائی دینے لگا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس طرح بیرونی مہمانوں کا استقبال توپوں کی سلامی سے کیا جاتا ہے ٹھیک اُسی طرح آر ایس ایس 30 مارچ کو مودی کا ناگپور ماڈل کے ذریعہ استقبال کرے گی۔ بی جے پی کے نئے صدر کے انتخاب اور ہندو راشٹر کی تشکیل کی سرگرمیوں پر بات چیت ہوگی۔ مودی جب ناگپور پہونچیں گے ظاہر ہے کہ وہاں ماحول کشیدہ رہے گا اور فساد کے آثار نمایاں دکھائی دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناگپور میں حالات بگاڑنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ جن علاقوں میں فسادات ہوئے وہ آر ایس ایس کا زیراثر علاقہ ہے۔ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر سے قریب مومن پورہ علاقہ ہے جہاں 1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت کے خلاف احتجاج پر پولیس نے مسلمانوں پر گولیاں داغتے ہوئے کئی کو شہید کردیا تھا۔ اورنگ زیب کے نام پر فسادات کی آگ ابھی بجھی نہیں کہ نریندر مودی ناگپور پہونچیں گے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اورنگ زیب کے نام پر ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا مقصد حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ مودی حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی کا آسان راستہ فرقہ وارانہ کشیدگی ہے۔ کرناٹک میں ٹیپو سلطان کے نام پر بی جے پی اور اُس کی ہمنوا تنظیموں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو بانٹنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اب مہاراشٹرا میں اورنگ زیب کی مزار کو ڈھانے کی سازش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 400 سال پرانی تاریخ پر اب سیاست کو گرمانے کی کیا ضرورت ہے۔ اورنگ زیب کے نام پر تاریخ کو تبدیل کرنے کی تیاری ہے جس میں مسلم حکمرانوں کو ہندوؤں کے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ مبصرین کے مطابق ہندوستان میں ناخواندہ آبادی اورنگ زیب سے واقف نہیں ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار اورنگ زیب کی مفت میں تشہیر کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اورنگ زیب پر تنقید یا اُن کی مزار کو ہٹانے سے عوام کو اور ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟ مزار رہے یا نہ رہے لیکن ملک میں بیروزگاری، بیماری، مہنگائی اور ناانصافی جیسے مسائل تو ہمیشہ برقرار رہیں گے۔ اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کو تاریخ کا حصہ بتانے والے مؤرخین میں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان حق بات کہہ دے تو اُسے ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ غیر مسلم مؤرخین سے اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کے بارے میں سوال کریں۔ کیا اورنگ زیب کی مزار مسمار کرنے سے تاریخ تبدیل ہوجائے گی؟ اورنگ زیب نے 100 سے زائد مندروں کی جو مدد کی تھی کیا اُس سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ ہمت ہو تو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بجائے ہندو مؤرخین سے بحث کریں جنھوں نے اورنگ زیب کو حقیقی معنوں میں سیکولر قرار دیا۔ اورنگ زیب اور شیواجی میں جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں بلکہ زمین اور اقتدار کی جنگ تھی۔ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے شاید بھول رہے ہیں کہ حقیقی معنوں میں اکھنڈ بھارت پر اورنگ زیب نے حکمرانی کی تھی۔ اطراف کے تمام ممالک ہندوستان کا حصہ تھے۔ مؤرخین نے یہاں تک لکھا کہ اورنگ زیب نے سرکاری خزانے سے تنخواہ حاصل نہیں کی بلکہ وہ ٹوپیاں بناکر جو آمدنی ہوتی اُس سے گھر چلاتے۔ کیا مخالفین میں کوئی بھی ایک شخص ایسی مثال پیش کرسکتا ہے؟
اورنگ زیب کے نام پر ناگپور میں صورتحال بگاڑنے کی ذمہ داری مہاراشٹرا کے چیف منسٹر دیویندر فڈنویس پر عائد ہوتی ہے۔ مہاراشٹرا میں عوام کو درپیش مسائل اور مالیاتی بحران جیسے اُمور کو پس پشت ڈالنے کے لئے دیویندر فڈنویس نے اچانک اورنگ زیب کے نام کا سہارا لیا۔ اسمبلی اور اُس کے باہر کئی مرتبہ دیویندر فڈنویس نے اورنگ زیب کی مزار کو مسمار کرنے کے حوالہ سے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ چیف منسٹر کے ذمہ دار عہدہ پر ہوتے ہوئے دیویندر فڈنویس نے انتہائی فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز تقاریر کرتے ہوئے نوجوانوں کو مشتعل کرنے کا کام کیا۔ ایک مرحلہ پر فڈنویس نے یہاں تک کہاکہ اگر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا تو اورنگ زیب کی مزار کو مسمار کرنا آسان ہوجاتا۔ دیویندر فڈنویس شاید یہ بھول رہے ہیں کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نریندر مودی حکومت کے تحت ہے۔ اگر مزار کو منہدم کرنا ہی ہے تو نریندر مودی حکومت سے تحفظ کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا اگر اورنگ زیب کی مزار کو ہٹانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر مرکز سے رجوع ہوکر دیکھیں کہ کیا جواب ملے گا۔ اورنگ زیب کی مزار کو مسمار کرنا بچوں کا کھیل نہیں اور اِسے بابری مسجد سانحہ کی طرح دہرانے کی سازش شاید ہی کامیاب ہوپائے گی۔ مہاراشٹرا کے وزیر نتیش رانے نے نوجوانوں کو مشتعل کرنے کے لئے یہاں تک کہا کہ بابری مسجد کی طرح اورنگ زیب کی مزار کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ نتیش رانے نے کہاکہ کیا بابری مسجد کو منہدم کرنے کے لئے کوئی بات چیت کی گئی تھی، وہ تو کارسیوک تھے جنھوں نے یہ کارروائی انجام دی۔ نتیش رانے کے مطابق 1992 ء کی تاریخ کو اورنگ زیب کی مزار کے لئے دہرایا جائے۔ دیویندر فڈنویس ہوں یا نتیش رانے اِن دونوں کی اشتعال انگیزی پر نریندر مودی کی خاموشی باعث حیرت ہے۔ نوجوانوں کو فرقہ واریت اور نفرت کے نام پر منقسم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پونے میں بہادر شاہ ظفر کی تصویر کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ نئی نسل بہادر شاہ ظفر سے واقف نہیں ہے۔ اورنگ زیب اور بہادر شاہ ظفر میں کوئی تقابل نہیں ہے اور انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو اُن کے خلاف بغاوت کی کچھ ایسی سزا دی تھی کہ جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انگریزوں کی غلامی قبول نہ کرنے پر بہادر شاہ ظفر کی آنکھوں کے سامنے اُن کے بچوں کا قتل کیا گیا تھا۔ جس حکمران نے ہندوستان کے لئے انگریزوں سے لڑائی کی اُنھیں ملک دشمن اور ہندو دشمن قرار دیتے ہوئے مظاہرے کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ سنگھ پریوار کو اگر چھوٹ مل جاتی ہے تو وہ ملک کے تمام مجاہدین آزادی کو ملک کا غدار اور انگریزوں سے معافی طلب کرنے والوں کو مجاہدین آزادی کی صف میں شامل کردے گا۔ گزشتہ 10 برسوں میں منظم طریقہ سے ملک کے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے قواعد کو تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ ریاستوں کی یونیورسٹیز پر مرکز کنٹرول حاصل کرسکے۔ سنگھ پریوار کو نہ صرف مسلمان بلکہ ہرے رنگ سے بھی نفرت ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے کئی علاقوں میں ہولی کے موقع پر مساجد کے روبرو موجود ہرے رنگ اور ہرے پرچموں کو اُکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی گئی۔ سنگھ پریوار اور نفرتی بریگیڈ کے نمائندے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ اُنھیں ہرا رنگ پسند نہیں ہے۔ ایسے نفرتی عناصر کو پہلے بی جے پی کا پرچم دیکھنا چاہئے جس میں خود ہرا رنگ شامل ہے۔ پہلے بی جے پی کے پرچم سے ہرا رنگ نکالیں اُس کے بعد مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر موجود ہرے رنگ کو تبدیل کرنے کی تیاری کریں۔ ہرے رنگ سے نفرت کرنے والے آنکھ کے آپریشن کے بعد ہری پٹی کے بجائے زعفرانی پٹی کا استعمال کرکے دکھائیں تو پھر اُنھیں پتہ چلے گا کہ آنکھ کا حشر کیا ہوگا۔ ملک کے قومی پرچم میں ہرا رنگ موجود ہے جسے شاید ہی کوئی طاقت الگ کرپائے گی۔ اورنگ زیب کے نام پر نفرتی ایجنڈے پر نامور شاعر راجیش ریڈی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
نئی لاشیں بچھانے کیلئے ہی
گڑے مُردے اُکھاڑے جارہے ہیں